ٹرمپ کی باقاعدہ رخصتی

642

ہر چار سال کے بعد 20 جنوری کو امریکی صدر کی تقریب حلف وفاداری ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ لیکن سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور دھاندلی کے الزام نے اِسے اہم واقعہ بنادیا ہے۔ جوبائیڈن نے 46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ تقریب حلف وفاداری 25 ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کے حصار میں منعقد ہوئی۔ عام لوگوں کو اس تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ جب کہ ماضی میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں پرجوش انداز میں شرکت کرتے تھے۔ تقریب حلف وفاداری کے موقع پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں مکمل لاک ڈائون تھا۔ لاک ڈائون کی وجہ کورونا کی عالمی وبا نہیں بلکہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے والوں کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کا خوف تھا۔ یہ خوف اس حد تک تھا کہ حفاظت پر مامور فوجیوں پر بھی اعتماد نہیں تھا۔ ان ہی سے خطرہ تھا کہ کوئی کارروائی نہ ہوجائے۔ جوبائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹ سینیٹ اور کانگریس میں پوری اکثریتی طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئے ہیں لیکن نئی انتظامیہ کو جو خطرات درپیش ہیں اس کا اظہار جوبائیڈن کی تقریر میں موجود تھا۔ رخصت ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرپ نے نئے صدر کو رسمی مبارکباد دے کر عملی طور پر نتائج کو تو تسلیم کرلیا لیکن انہوں نے روایتی طور پر تقریب میں شرکت سے گریز کرتے ہوئے اپنے موقف پر اصرار کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے اور انہیں ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ نے ہرایا ہے۔ وہائٹ ہائوس سے رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا ہے کہ وہ دوبارہ واپس آئیں گے۔ حلف برداری کی تقریب میں ان کے نائب صدر اور سابق ری پبلکن صدر بش بھی شریک ہوئے لیکن یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ 6 جنوری کو ووٹوں کی آخری گنتی اور نتائج کی تصدیق کے عمل پر مشتعل مظاہرین کے حملے نے ٹرمپ کو تقسیم کردیا ہے۔ جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں تقریب کے پرامن انعقاد کو ’’جمہوریت‘‘ کی کامیابی کہا ہے اور اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں جنہوں نے ان کو ووٹ دیا ہے اور ان لوگوں کے بھی صدر ہیں جنہوں نے ووٹ نہیں دیا۔ انہوں نے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کی تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن اس رسمی خطاب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نظام اور معاشرے کے داخلی امراض کو عیاں کردیا ہے۔ ٹرمپ وہائٹ ہائوس سے رخصت تو ہوگئے ہیں لیکن امریکی شہریوں کی بڑی تعداد کو یقین دلانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ انہیں ہرایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 6 جنوری کے غیر معمولی واقعے یعنی امریکی پارلیمان پر مشتعل ہجوم کے حملے اور قبضے کے تلخ ترین واقعے کے باوجود ری پبلکن پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ٹرمپ انتخابی دھاندلی کے الزام کے شواہد تو پیش نہیں کرسکے اور انہیں اس سلسلے میں امریکی ریاستی اداروں کے کسی بھی حصے بشمول عدلیہ سے مدد نہیں ملی لیکن امریکی آبادی کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ ٹرمپ کو ہرایا گیا ہے۔ امریکی معاشرے اور نظام کو خطرے میں مبتلا کرنے والی سب سے اہم اور جارحانہ تحریک سفید فام طبقے کی بالادستی کی تحریک ہے۔ امریکی جمہوریت کے ظاہری روشن چہرے کی اندرونی تاریکی کو ٹرمپ کے جارحانہ اور بے باکانہ انداز نے بے نقاب کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے نمائندے کی حیثیت سے نئے امریکی صدر کے سامنے داخلی مسائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہائٹ ہائوس سے نکلتے ہوئے ٹرمپ نے اشارہ دے دیا ہے کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ امریکی ہئیت مقتدرہ آخری وقت تک ٹرمپ سے خوف زدہ رہی کہ وہ صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیا فیصلہ کر بیٹھیں اس لیے باقی ماندہ 14 دن کی صدارت کی مدت کو وقت سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہیں ہوسکی۔ امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک پیش کردی گئی لیکن ٹرمپ آخری دن تک ایوان صدر میں رہ کر اپنے اختیارات استعمال کرتے رہے۔ جوبائیڈن کی سربراہی میں بارک اوباما کی ٹیم دوبارہ واپس آگئی ہے۔ اس ٹیم میں 12 بھارت نژاد امریکی بھی شامل ہیں۔ جن میں پہلی خاتون نائب صدر بھی ہیں، جو ایک بھارتی سفارت کار کی بیٹی ہیں۔ صدر خطے اور عالمی سیاست امریکا اور بھارت کی دفاعی و تزیرواتی (اسٹرا ٹیجک) شراکت داری کے تناظر میں یہ منظرنامہ پاکستان کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ بارک اوباما کا دور پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے انتہائی تلخ رہا۔ اسی دور میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوجی حملہ جس کے نتیجے میں ناٹو سپلائی کی بندش، لاہور میں سی آئی اے کے دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کی رنگے ہاتھوں گرفتاری اور ایبٹ آباد پر حملہ جیسے واقعات شامل ہیں۔ جوبائیڈن پاکستان کے سیاسی کرداروں سے براہ راست بھی واقف ہیں۔ اس عرصے میں خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ عالمی سیاست میں امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے والی نئی طاقتوں کی وجہ سے پاکستان جیسے مسلم ممالک کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کی رخصتی کا جشن منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ امت مسلمہ کا کھلا دشمن تھا جب کہ باقی امریکی قیادت کے دلوں اور دماغوں میں چھپی ہوئی دشمنی ظاہری دشمنی سے بھی زیادہ شدید ہے۔