کئی ممالک حزب اختلاف کو پیسے دیتے رہے، نام لیا تو تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، وزیراعظم

360
شمالی وزیرستان: وزیراعظم عمران خان انصاف روزگار اسکیم تقریب سے خطاب کررہے ہیں

وانا ( آن لا ئن )وزیراعظم نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کی اوپن سماعت ہونی چاہیے،چیلنج کرتا ہوں فارن فنڈنگ کیس ٹی وی پر براہ راست دکھانے کے لیے تیار ہیں ، ، فارن فنڈنگ کیس میں پارٹی سربراہوں کو بٹھا کر کیس سننا چاہیے تا کہ سب کو پتا چلے ، کئی ممالک اپوزیشن کی جماعتوں کی فنڈنگ کرتے رہے ہیں لیکن تعلقات کی وجہ سے ان ممالک کے نام نہیں لے سکتا۔جنوبی وزیرستان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس اٹھانے پر اپوزیشن کا شکر گزار ہوں، یہ سب سامنے آنا چاہیے کہ تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی رہی، ساری دنیا میں سیاسی جماعتیں فنڈنگ کرتی ہیں، فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت ہونی چاہیے اور اسے ٹی وی پر براہ راست دکھایا جائے، پارٹی سربراہوں کو بھی بٹھا کر کیس سننا چاہیے، اس کیس سے ساری قوم کو پتا چلے گا کہ کس نے اس ملک میں ٹھیک طریقے سے پیسہ اکھٹا کیا۔انہو ںنے کہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بھیجے گئے ترسیلات زر سے ملک چلتا ہے، میں نے شوکت خانم اسپتال کی فنڈنگ سمندرپار پاکستانیوں سے کی، چیلنج کرتا ہوں کہ سیاسی فنڈ ریزنگ صرف تحریک انصاف نے کی اپوزیشن کی جماعتوں کو معلوم ہے اور مجھے بھی پتا ہے کہ فارن فنڈنگ کونسی ہے اوورسیز پاکستانی فارن فنڈنگ نہیں ہیں، کئی ملک ان جماعتوں کو پیسے دیتے رہے، ان ممالک سے تعلقات کی وجہ سے میں بتا نہیں سکتا۔مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن مدارس کے بچوں کو استعمال کرکے حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں، ان کی اربوں روپے کی جائداد کہاں سے آئی، وہ این آر او کے لیے بلیک میل کررہے ہیں، عوام سمجھدار ہیں وہ کسی کی چوری بچانے کے لیے نہیں نکلیں گے۔ملک کے معاشی حالات پر وزیراعظم نے کہا کہ معاشی مشکلات کے باعث ہمیں اخراجات کم اور آمدنی بڑھانی تھی، اخراجات کم کرنے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہمیں اصلاحات کرنی تھیں جس میں دیر ہوئی کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں بھاری اکثریت کے بغیر اصلاحات نہیں ہو سکتیں، 18ویں ترمیم کے بعد ہم صوبوں کو ساتھ ملائے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، معاشی بدحالی اور کورونا کے باوجود معاشی عشاریے دیگر ممالک سے بہتر ہیں، کورونا کے باوجود ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں ورکرز نہیں مل رہے۔ علاوہ ازیں وانا میں ’’جواں پروگرام ‘‘کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی حکومت پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ، جنوبی وزیرستان میں 3 جی 4 جی معاملے پر فوجی قیادت سے بات کی اور فیصلہ کیا یہ سہولت نوجوانوں کی اہم ضرورت ہے۔ خد شہ تھا کہ 3 جی 4 جی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو ۔ ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ ہم نچلے طبقے کو اوپر لے کر جائیں اور وقت ثابت کرے گا کہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں ضم ہونا بہترین فیصلہ تھا۔ جنوبی وزیرستان میں اسکول، ٹیکنیکل کالج اور یونیورسٹی کھولیں گے، دوسرا بڑا چیلنج نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ہے، کامیاب نوجوان پروگرام ابھی شروعات ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی طاقت نوجوان ہیں اور اگر ہم انہیں تعلیم، تکنیکی تعلیم دے دیں تووہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ ملک کو اوپر لے جائیں گے۔ یہاں کے ہر خاندان کو ہیلتھ کارڈ دیا جائے گا ، ہیلتھ کارڈ کے ذریعے 7لاکھ روپے تک کا علاج کرایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا سب سے بڑا چیلنج روزگار ہے، گزشتہ 15 سال میں سب سے زیادہ تباہی وزیرستان میں ہوئی، لہٰذا یہاں کے نوجوانوں کو روزگار دینے کی بہت ضرورت ہے، آج کامیاب جوان پروگرام کے تحت جو چیک دیے ہیں وہ شروعات ہیں، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ یہاں اور بلوچستان کے علاقوں میں زور لگائیں کیونکہ وہاں کے لوگ بھی پیچھے رہ گئے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت گھی اور آئل باہر سے منگوانا پڑتا ہے ، دنیا میں وزیرستان زیتون کی کاشت کے لیے بہترین علاقہ ہے، اس علاقے میں زیتون کا انقلاب لائیں گے، قبائلی علاقوں میں بزرگوں کا کردار اہم ہوتا ہے، اس لیے اے ڈی آر میں بھی بزرگ ہی بیٹھیں گے اور وہی فیصلہ کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن بھارت بلوچستان اور وزیرستان میں انتشار پھیلانے کی پوری کوشش کر رہا ہے، اس کے لیے موبائل فون پر انٹر نیٹ سروس کو استعمال کیا جارہا ہے۔ قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب ملک کے سربراہ ڈاکو ہوں تو وہ ترقی نہیں کر سکتا، ریاست مدینہ ایک دم نہیں بن گئی تھی ، آہستہ آہستہ تبدیلی آئی ، عوام سے سچ بولوں گا وہ یہ امید نہ لگائیں کہ 2سال میں پاکستان میں انقلاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دبائو میں آکر کرپٹ لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور این آر او دیدیا ۔ جو ریاست قانون پر کوئی سمجھوتا نہ کرے اس کی تبدیلی کرتے ہیں جو اب آچکی ہے ۔