امریکا یا چین: کیا ہمارے پاس یہی آپشن ہیں

861

اپنے قارئین کی رہنمائی اور ذہن سازی کے لیے روزنامہ جسارت نے کچھ عرصے سے ماہرین اور مخصوص شعبوں سے وابستہ افراد کی مختلف موضوعات کے حوالے سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ ایک قابل قدر کاوش ہے جس کی اہمیت کا اندازہ رواں ہفتے کے موضوعات سے لگایا جاسکتاہے۔ ’’کیا نئے انتخابات ملک کو درپیش مسائل کا حل ہیں‘‘۔ ’’او آئی سی کی عدم فعالیت کا ذمے دار کون ہے، متبادل فورم کیا ہوسکتا ہے‘‘۔ ’’کیا صدارتی نظام پا کستان کے لیے پارلیمانی نظام سے بہتر ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔ ’’عرب امارات اور پاکستانی وزیرخارجہ کے دوطرفہ تعلقات کے بارے میں بیانات مختلف کیوں ہیں‘‘۔ ’’اسرائیل سے تعلقات کی حالیہ دوڑ کی وجہ کیا ہے؟‘‘ ’’کیا دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار امریکا اور یورپ ہیں اور جمعہ 15جنوری کا عنوان تھا ’’کیا پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر چین اور روس کے قریب ہورہا ہے‘‘۔ اس موضوع پرگفتگو میں عالمی سفارتی تعلقات دوطرفہ امور اور عالمی سیاسیات پر نظر رکھنے والی شخصیات نے حصہ لیا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت خارجہ پالیسی کے لیے ملک کا مفاد دیکھ رہی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کسی ملک یا کسی کیمپ کے لیے نہیں ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ متوازن رہی ہے۔ امریکا دنیا کا بڑا ملک ہے اس کی ترجیحات اپنی ہیں اور وہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے مگر پاکستان نے ہمیشہ اپنے مفاد کو مدنظر رکھا۔ سابق ہائی کمشنر اور سفارتی امور کے ماہر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اور عالمی امن کے لیے ہم نے امریکا اور چین کے مابین پل کا کردار بھی ادا کیا، پیپلز پارٹی کے نواب زادہ افتخار احمد خان بابر نے کہا ناکام سرکار ہر شعبے میں ناکام ہورہی ہے۔ یہ کسی بھی کیمپ میں نہیں جارہے بلکہ یہ سرکار ملک کو ناکامی کے کیمپ میں لے جارہی ہے، عبداللہ حمید گل نے کہا یہ کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے فی الحال یہ بات نہیں لگ رہی ہے۔ امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش تو گزشتہ ستر سال سے ہورہی ہے مگر اس میں کامیابی نہیں ہورہی، عالمی اسٹرٹیجک اور سیاسی امور کے ماہر عمر فاروق نے کہا ہماری ایلیٹ حکمران لابی یہ چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان توازن کے ساتھ رہا جائے لیکن اس کے باوجود میری رائے میں امریکا سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تجزیہ کار عظیم چودھری نے کہا کہ تمام عالمی مالیاتی اداروں پر چین کا نہیں امریکا کا کنٹرول ہے۔ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے اگر یہ فیصلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں گھاس کھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، مسلم لیگ ج کے محمد اقبال ڈار نے کہا کہ امریکی کیمپ میں رہ کر بہت کچھ کھویا۔ اب ہم چین اور روس کے قریب جارہے ہیں، معاشی ماہر اور انجینئر عبدالرب خان نے کہا پاکستان چین کے قریب ہورہا ہے لیکن یہ کہنا کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے شاید یہ بات درست نہ ہو۔ پارلیمانی امور کے ماہر علی شیر نے کہا ہمارا جھکائو امریکا اور روس کی طرف ہے مگر پاکستان امریکا کو بھی نہیں چھوڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا۔۔۔ لیکن ذرا بعد میں۔
پاکستان ایک انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے جہاں چین، روس، افغانستان، بھارت اور ایران ہمارے ہمسائے ہیں اور ساتھ ہی امریکا بھی جو بحیثیت سپرپاور ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد امریکا کی پہلی ترجیح بھارت تھا۔ اس وقت امریکا کو کمیونزم کے خطرے کے خلاف کرائے کے فوجیوں کی ضرورت تھی۔ بھارت یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہم تیار تھے اور یہ کردار ادا کرنے کے لیے خود چل کر امریکا کے پاس گئے۔ یہ تھی وہ ضرورت جو امریکا اور پاکستان کے پہلے تعلق کی وجہ بنی۔ ہم سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوگئے۔ پچاس کے عشرے کے آخری برسوں ہی سے بھارت کے غیر جانبدارانہ پالیسی پر مضبوطی سے جمے رہنے کے
باوجود امریکا بھارت تعلقات مسلسل فروغ پارہے تھے اور امریکا بھارت کو بڑے پیمانے پر اقتصادی امداد کی پیش کش کر چکا تھا۔ 1962ء میں بھارت کی چین سے شکست کے بعد امریکا کے مغربی اتحادیوں نے بھارت کو فوجی امداد دینا شروع کردی۔ اس موقع پر امریکا اور اس کے اتحادی بھارت کو احساس دلاتے رہے کہ اسے مستقبل میں چین کے ایک بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 1965 اور 1971 کی جنگ میں امریکی فیصلوں کا فائدہ بھارت کو پہنچا۔ پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ کیا تو امریکا نے ہر ممکن حد تک اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ 1979میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے اور نائن الیون کے بعد جب جب امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہم نے امریکا سے تعاون میں کوئی کسر نہ چھوڑی اس کے عوض امریکا سے امداد اور قرضوں کی صورت میں ہمیں کئی ارب ڈالر کی امداد اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی اداروں کی جکڑ بندیوں میں بندھی مالی امداد ملی جو پاکستان کو بتدریج تباہی کی طرف لے کر جارہی ہے۔ امریکی بے وفائی اور بھارت چین کشمکش کے ردعمل میں ہم چین سے قریب ہوگئے۔ چین نے بھی ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا یہاں تک کہ معاملہ سی پیک تک آپہنچا۔ امریکا اور بھارت نے جس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ہمارے یہاں چونکہ اقتدار میں آنے اور رہنے کے لیے امریکا کی آشیر باد لازمی سمجھی جاتی ہے اس لیے ہمارے حکمرانوں کی پہلی ترجیح امریکا ہے۔ دوسری طرف چین سے تعلقات کو بھی پاکستان میں وسیع حلقوں میں ناگزیر خیال کیا جاتا ہے۔
بات محض خارجہ پالیسی کی نہیں ہے بلکہ ہمارے یہاں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے لیے ہمارا امریکا، چین یا روس کسی ایک عالمی قوت سے وابستہ رہنا ضروری ہے جب کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی پالنے والا، رزق دینے والا اور موت د ینے والا ہے۔ کسی دنیاوی سپر پاور میں یہ قوت نہیں کہ وہ ہمیں فنا کرسکے۔ اگر واقعی ہمارا یہ عقیدہ ہے اور یقینا ہے تو پھر ہم کیوں اللہ سبحانہ تعالیٰ کو چھوڑ کردنیاوی طاقتوں پر انحصار کررہے ہیں اور پھر دنیاوی طاقتیں بھی وہ جو ایک سے بڑھ کر ایک مسلمانوں کی خوفناک دشمن ہیں۔ امریکا ہو یا چین جسے جب جہاں مسلمانوں کو برباد اور موت کے گھاٹ اُتارنے کا موقع ملتا ہے وہ کسی پس وپیش سے کام نہیں لیتیں۔ رسالت مآبؐ نے دنیا کے مختلف سربراہان اور عالمی سپر پاورز کو جب خطوط لکھے تو اس وقت عالی مرتبتؐ کو جزیرۃُ العرب کی کامل حکمرانی حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود آپؐ نے شاہِ فارس کو اس انداز میں چیلنج کیا ’’میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام بد سے ڈرایا جائے اور کافروں پر حق بات ثابت ہوجائے، پس تم اسلام لائو سلامتی میں رہو اور اگر اس سے انکار کیا تو تم پر مجوس کا بھی بار گناہ ہوگا‘‘ قیصر شاہِ روم کو ارسال کردہ خط بھی اسی مضمون کا حامل تھا۔ سرور کونینؐ ایک لمحے کے لیے بھی اس فکر میں مبتلا نہیں ہوئے کہ قریش اور عرب قبائل سے نمٹنے کے لیے کسی عالمی قوت سے مدد لی جائے یا ایک کے ساتھ دوستی کی جائے اور ایک سے نمٹا جائے۔ ان سے مدد لینا تو درکنار آپؐ نے بیک وقت دونوں سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ سوچ تھی جس نے مسلمانوں کو ایک عالمی قوت بنایا اس کے برعکس ایک مائنڈ سیٹ یہ ہے جس کی وجہ سے آدھا ملک گنوانے کے باوجود آدھا ملک بچانے کے لیے ہم ان ہی قوتوں سے سلامتی کے لیے رجوع کررہے ہیں۔ اگر افغان مجاہدین بھی یہی سوچ رکھتے تو امریکا ان سے مذاکرات کی بھیک نہ مانگ رہا ہوتا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عبدالاکبر چترالی تحسین کے حق دار ہیں کہ انہوں نے اس اسلامی فکر کا اظہارکیا کہ ’’ہمیں قرآن و سنت کے کیمپ میں رہ کر اپنے فیصلے کرنے ہیں، ہم ایک اسلامی ملک ہیں اور نظریاتی مملکت ہیں، ہمیں اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ بطور اسلامی ملک ہم کیا فیصلہ کریں، امریکا نے تو ہمیں ہمیشہ نقصان ہی دیا ہے، ہمارے لیے مسائل پیدا کیے ہیں اور اس نے اپنی پالیسیاں یہاں نافذ اور مسلط کرنے کی کوشش کی ہے، اب ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے‘‘۔