امریکی صدر کا حلف: خوف اور خدشات

781

واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ: ’’ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن اور کیپٹل ہل میں ’جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے، تشدد کے خاتمے کا دور دور تک کوئی اشارہ نہیں ہے‘۔ اخبار کا مزید کہنا ہے اس دوران واشنگٹن اور کیپٹل ہل کے ارد گرد جہازوں اور ڈرون سے بھی حملہ ہو سکتا ہے‘‘۔ لیکن اس کے باوجود نو منتخب امریکی صدر انجیل پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اُٹھا ئیں گے کہ ’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ایمانداری سے اپنے عہدے کی ذمے داریاں نبھاؤں گا، اور اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکی آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا‘۔ ان الفاظ کو ادا کرتے ہی جو بائیڈن امریکا کے 46ویں صدر اور پھر کملا ہیرس نائب صدر بن جائیں گی اور حلف برداری کی تقریب کا سب سے اہم جزو مکمل ہو جائے گا۔ برسوں سے یہ تقریب دنیا بھر میں دلچسپی کا باعث رہی ہے اور 2009ء میں بارک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت میں حلف اٹھایا تھا تو تقریب میں تقریباً20 لاکھ افراد نے شرکت کی تھی لیکن اس مرتبہ کووڈ 19 کا بہانہ بنا کر تحفظ امریکا کے لیے ایسا کیا جارہا ہے۔ روایت کے مطابق جانے والا صدر نو منتخب صدر کے حلف اُٹھانے کی تقریب میں موجود ہوتا تھا لیکن 20جنوری 2021ء کو صدر ٹرمپ واشنگٹن کے بجائے فلوریڈا میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ موجود ہوں گے۔ امریکا میں صدر ٹرمپ سمیت 3صدور ایسے ہو جائیں گے جو موجودہ صدرکی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کر سکے۔
نیوز ویب سائٹ پولیٹیکو کے مطابق ابراہم لنکن کی موت کے بعد ان کے نائب صدر اینڈریو جانسن صدر بن جانے کی تقریب ِ حلف برادر ی، اور 1968 کے انتخاب میں شکست کھانے والے جان کوئنسی نے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ چار برس قبل جب صدر ٹرمپ حلف اُٹھا رہے تھے تو اس تقریب میں سبکدوش صدر بارک اوباما کے علاوہ صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود ہلیری کلنٹن نے اپنے خاوند اور سابق صدر بل کلنٹن کے ساتھ شرکت کی تھی۔
دنیا میں پہلی مرتبہ ٹوئٹر نے امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کر دیا اور صدرِ امریکا کو اپنے ووٹر کو کسی بھی طرح کا پیغام بھیجنے پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکا میں مکمل پابندی عائد ہے۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے جو بائیڈن کی فتح کو شکست میں بدلنے کے لیے ووٹ ’تلاش‘ کرو کا حکم دیا تھا جس پر ان کا ٹوئٹر بند کر دیا گیا امریکی قانون کے تحت حلف برداری کی تاریخ 20 جنوری متعین ہے۔ امریکی وقت کے مطابق تقریب کا آغاز صبح ساڑھے گیارہ بجے ہوگا اور حلف برادری دوپہر بارہ بجے ہو گی۔ اس دن حلف برداری کے بعد جو بائیڈن وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائیں گے جو بطور صدر ان کا اگلے چار سال تک گھر رہے گا۔
صدارتی حلف برداری کی تقریب میں بہت جامع سیکورٹی منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن اس بار7 جنوری کو ہونے والے واقعات کے بعد امریکی دارالحکومت میں مکمل طور پر کرفیو کا سماں ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد نے کیپٹل ہل کے نام سے معروف امریکی قانون ساز عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس سال کی تقریب کے
لیے دس ہزار سے زیادہ نیشنل گارڈز جن میں جدید ترین اسلحہ اور ہوائی حملے کرنے کی صلاحیت رکھنے والوںکو طلب کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فوج بھی تیار رہے گی جس کو ایمرجنسی میں طلب کیا جا سکے گا۔ لیکن اطلاعات ہیں کہ 26سے 30ہزار افواج کو واشنگٹن میں رکھا گیا ہے۔ چار برس قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا تھا تو اس روز واشنگٹن میں آٹھ ہزار نیشنل گارڈز کو تعینات کیا گیا تھا۔ جب جو بائیڈن بطور صدر اپنا حلف اٹھائیں گے تو اس دن واشنگٹن میں ایمرجنسی نافذ ہو گی، جو 7جنوری کے واقعات کے بعد شہر کے میئر نے نافذ کر دی تھی۔ گزشتہ سال کے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست سے مسلسل انکار کرنے والے صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حمایتی بھی نتائج ماننے سے انکاری ہیں، ان میں سے چند نے تو ’ورچوئل تقریب حلف برداری‘ کا انتظام کیا ہے جو اسی دن اور اسی وقت ہوگی جب جو بائیڈن اپنا حلف اٹھا رہے ہوں گے۔ فیس بک پر منعقد ہونے والے اس ایونٹ میں شرکت کرنے کے لیے ایک کروڑ سے زیادہ افراد اپنی رضا مندی دکھا چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا کے باوجود بڑی تقریب کے انتظامات کیے جارہے تھے لیکن ہنگامی صورتحال کی وجہ سے حجم بہت چھوٹا رکھا گیا ہے اور بائیڈن نے اپنے حامیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دارالحکومت نہ آئیں۔ ماضی میں تقریب میں شرکت کرنے کے لیے دو لاکھ کے قریب ٹکٹ فروخت کیے جاتے تھے لیکن اس سال صرف ہزار ٹکٹس فروخت کیے جائیں گے۔ ان میں سے ہر ٹکٹ 10لاکھ ڈالر کا ہوتا ہے سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین کے پاس بھی محدود تعداد میں ٹکٹس ہوتے ہیں جو وہ بانٹ سکتے ہیں لیکن اس سال ہر رکن کو اپنے ساتھ صرف ایک اور مہمان ساتھ لانے کی اجازت ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریب جنوری میں کیوں ہوتی ہے؟ ماضی میں صدارتی حلف برداری کی تقریب چار مارچ کو ہوا کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک کے طول و عرض کے باعث ووٹ دیر سے جمع ہوتے تھے تو اس کے لیے زیادہ وقت دیا جاتا تھا لیکن اس کا نقصان یہ تھا کہ نو منتخب صدر کو چار ماہ تک انتظار کرنا پڑتا تھا جو بہت طویل عرصہ تھا۔ تاہم ٹیکنالوجی اور مواصلات میں بہتری آنے کے بعد 1933 میں اس دورانیہ کو آئین کی 20ویں ترمیم کے ذریعے کم کر دیا گیا اور 20 جنوری کی تاریخ حلف برداری کے لیے چن لی گئی۔ نو منتخب صدر نے فوری طور پر دو درجن سے زائد صدارتی احکامات کی تیاری مکمل کر لی ہے جن میں ایران سمیت آدھے درجن سے زاید ممالک پر عائد سفری پابندی کا خاتمہ ہے اور پورے ملک میں ماسک لگانے پابندی بھی شامل ہے طویل عرصے سے دنیا بھر کے اخبارات کے نمائندے اس تقریب کی اچھی کوریج کرتے اور اس کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں لیکن 20جنوری 2021ء کی تقریب کے بارے میں دنیا کے اخبارات کے پاس سوائے خدشات کے اور کچھ نہیں۔ ہمارے پی پی پی کے صحافیوں اور اینکرزنے یہ افواہ اُڑائی تھی کہ بلاول، آصف زرداری کو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملی ہے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے بطور نائب صدر 2011 میں اْس وقت کے پاکستانی صدر آصف زرداری سے ملاقات کی پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین بلاول یا شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا گیا ہے۔