براڈ شیٹ: حقائق سامنے لائے جائیں

546

وزیراعظم عمران خان نے براڈ شیٹ کیس کا نوٹس لے لیا ہے اور کیس عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سات ہی عزم ظاہر کردیا ہے کہ بھارت کے عزائم بے نقاب کریں گے گویا انہوں نے اپنے عزائم تو بے نقاب کر دیے کہ جو بھی کچھ سامنے لایا جائے گا وہ بھارت کے خلاف ہوگا اور ملبہ بھارت پر ہی ڈالا جائے گا۔ افسوس ناک مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے غیر سنجیدہ حکمران اپنے ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اس کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اور حکومت کا چھوٹا پروپیگنڈا تو چند روز قبل ہی بے نقاب ہو گیا تھا لیکن براڈ شیٹ کیس میں پاکستانی حکومت محض اس لیے الجھ گئی کہ اس نے پورے ملک کا نظام مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے چند لیڈروں کے احتساب کی خاطر معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ اور ان کی ٹیم ملک کی ہر خرابی کا ملبہ شریف برادران یا زرداری خاندان پر ڈالنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں امن و امان اور خارجہ محاذ پر ناکامی کا ملبہ بھارت پر ڈال کر یہ حکمران ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اب بھی وزیراعظم نے تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے 48 گھنٹوں میں رپورٹ کا وعدہ ہے لیکن اس سے پہلے کی رپورٹوں اور نوٹسوں کا کیا بنا۔ جب وزیراعظم نے پیٹرولیم مافیا کے خلاف نوٹس لیا اور کہا کہ مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن جب اس مافیا نے پیٹرول سستا ہونے کے باوجود غائب کر دیا تو انہوں نے کیا کر لیا۔ چند ہی دنوں میں مافیا کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی عوامی فنڈنگ سے وجود میں آئی۔ مافیا نے پیسہ لگایا ہوتا تو ہم ان کے سامنے جھک جاتے۔ وزیراعظم عمران خان میں یہ خصوصیت ہے کہ کبھی شرمندگی کا شائبہ تک ان کے چہرے پر نہیں آتا یعنی مافیا کے سامنے جھک کر چند ہی روز میں ایک ہی ہلے میں پیٹرول کی قیمت 25 روپے بڑھا دی گئی اور کہتے ہیں کہ اگر مافیا نے فنڈنگ کی ہوتی تو ان کے سامنے جھک جاتے۔ الیکشن کمیشن کے پاس فارن فنڈنگ کیس پانچ سال سے پڑا ہے اب تو عمران خان وزیراعظم ہیں لیکن وہ کوئی بھی فیصلہ دے کیا اس سے حقیقت تبدیل ہو جائے گی۔ گزشتہ پونے تین برس میں دنیا نے دیکھا ہے کہ عمران خان کس طرح مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکے کھڑے رہتے ہیں۔ ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ کئی مافیاز کے سامنے بیک وقت دست بستہ ہیں۔ اپنے سلیکٹرز کو بھی انہیں سننا اور ماننا ہے اور ان لوگوں کی بھی ماننا پڑتی ہے جو اپنے طیاروں میں لوٹوں کو ڈھو کر لاتے اور پی ٹی آئی میں شامل کر دیتے تھے۔ پھر جب شوگر مافیا کا نوٹس عمران خان نے لیا تو اس شوگر مافیا کے لوگوں نے شکر کو 100 روپے کلو تک پہنچا دیا۔ عمران خان شوگر مافیا کے آگے بھی جھکے۔ اب وہ براڈ شیٹ کیس کا نوٹس لے کر 48 گھنٹے میں رپورٹ دینے کی بات تو کر گئے لیکن کیا ان کی بنائی ہوئی ٹیم حقائق پر مبنی رپورٹ دے گی۔ کیا اس الزام کا کوئی ٹھوس جواب ہے کہ ان کی حکومت نے براڈ شیٹ سے کمیشن مانگا تھا۔ سوال یہ ہے کہ تین رکنی حکومتی کمیٹی کوئی غیر جانبدارانہ فیصلہ کر سکے گی۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔ پاکستان میں تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر معاملہ عدالتوں کے حوالے کیا گیا تو دو تین حکومتیں گزر جانے کے بعد فیصلہ آئے گا۔ عدالتی نظام ہی اس قدر پیچیدہ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اب بھی براڈ شیٹ کے ذریعے نواز شریف کے خلاف کوئی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن کیا کروڑوں ڈالر محض اس لیے اڑا دیے جائیں کہ اس سے حکومت کے ایک مخالف کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ وزیراعظم اگر براڈ شیٹ کیس کے حقائق منظر عام پر لانا چاہتے ہیں اور اس کام میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ ازخود معاملہ عدالت کے حوالے کر دیں کم ازکم ان کے دور حکومت میں کچھ حقائق تو سامنے آ ہی جائیں گے۔ ورنہ کم ازکم براڈ شیٹ کے مالک موسوی کے بیان کے مطابق برطانوی ہائی کورٹ کا فیصلہ تو پورا شائع کر دیں جس سے بہت سے حقائق سامنے آ سکیں گے۔ دوسرا کام حکومت کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنی بقیہ مدت وہ نواز شریف اور زرداری برادران کا پیچھا چھوڑ کر عوام کے مسائل حل کرنے میں لگا دے۔ گزشتہ پونے تین سالہ کارکردگی بتا رہی ہے کہ نواز و شہباز کے کیس کے پیچھے قوم کا کباڑا کر دیا گیا ہے۔ تعلیم، تجارت، توانائی، ریلویز، پیٹرولیم، آٹا، چینی، ڈالر ہر معاملے میں حکومت نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ کسی چیز پر حکومت کی گرفت تو کجا حکومت کی موجودگی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ ہر شعبے میں انارکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے درست کہا ہے کہ مشیر درآمد ہو رہے ہیں۔ تبدیلی کے نعرے سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں۔ اب تو انہوں نے اس نعرے سے بھی یوٹرن لے لیا ہے کہ تبدیلی بٹن دبانے سے نہیں آتی۔ وقت لگے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر تبدیلی میں وقت لگے گا تو ایسے دعوے نہ کیے جاتے کہ حکومت میں آتے ہی سب کچھ بدل کر رکھ دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نے سوائے وزیراعظم اور پارٹی کے نام کے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے۔ جو کچھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں کر رہی تھیں اس سے بھی زیادہ ان کی حکومت کر رہی ہے بلکہ اول الذکر دونوں پارٹیوں کے رہنما بڑے گھاگ ہو چکے تھے اس لیے بڑی چالاکی سے کام کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں تو بھونڈے طریقے سے وہی سارے کام ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ سب کے سب پی پی پی اور مسلم لیگ سے یا جنرل پرویز مشرف کے پاس سے آئے ہیں اور ہر حکومت میں تیس برس سے شامل ایم کیو ایم ہے۔ ان لوگوں نے تیس چالیس برس میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں یہی لوگ ایسی تبدیلی کیسے لا سکیں گے؟ حقائق سامنے آئے تو براڈ شیٹ کیس پی ٹی آئی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر دے گا۔