عظمت کا مینارہ…پروفیسر سید مختار الحسن گوہر

640

آخری حصہ

چند اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں۔

میری بیٹی کا حمیرا نام ہے
سب کی خدمت کرنا اس کا کام ہے
ہو رہی ہے آج اس کی رخصتی
آنے والی ہے جدائی کی گھڑی
والدہ کو دیکھیے سنجیدہ ہیں
اور والد بھی بہت رنجیدہ ہیں
آنکھوں کا کشکول آخر بھر گیا
ہاتھ سے مختار کے گوہر گیا
ماں نے بیٹی سے کہا المختصر
یاد رکھنا یہ نصیحت عمر بھر
ہے یہی حکم خدائے ذوالجلال
اپنے شوہر کا سدا رکھنا خیال

چند سال قبل ان کی اہلیہ سنجیدہ گوہر داغِ مفارقت دے گئیں تو گوہر صاحب بڑے رنجیدہ اور ملول رہنے لگے۔ ایک دو برس نہیں چار دہائیوں کا ساتھ تھا، دُکھ سُکھ کا زمانہ صبر و استقامت کے ساتھ گزارا تھا۔ ان کی اہلیہ انتہائی صابر و شاکر، منکسر المزاج اور قناعت پسند خاتون تھیں۔ تنگدستی ہو یا خوشحالی کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں۔ میرا کئی بار گھر جانا ہوا بڑی محبت سے پیش آتیں، ان کے مزاج کی یہی خوبی رہ رہ کر یاد آتی ہے۔ اور پھر گوہر صاحب کا رنج و ملال بجا ہے کہ ان کی کامیابیوں میں ان کی اہلیہ کی دعائوں کا بڑا حصہ شامل حال رہا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی موت کے بعد گفتگو انہی سے شروع ہوتی اور ان ہی پر اختتام پزیر ہوتی۔ بلاشبہ اہلیہ کی جدائی کا قلق ان کے قلب و حزیں کا حصہ بن کر رہ گیا تھا۔ جسے فراموش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔

میٹھی میٹھی سندر یادیں
ڈستی ہیں بن بن کر ناگن
بن دیپک ہیں رین سپیرے
دیب جلائوں کس کے کارن
گھٹتی جائے سانس کی ڈوری
بڑھتی جائے تڑپن، دھڑکن

وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’مجھے زندگی سے عشق اپنی اہلیہ کی وجہ سے ہوا ہے جو بڑی باہمت اور صابر و شاکر خاتون تھیں۔ کبھی خواہشات اور ضروریات کا اظہار نہیں کرتیں، ہمیشہ میرا خیال رکھتی تھیں، میں کہتا ہوں اپنے کپڑے بنوالیں تو جواب ملتا تھا کہ میں تو گھر میں رہتی ہوں آپ کو بنوانے چاہیے کیوں کہ آپ باہر رہتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا رہتا ہے۔ ’’شادی بیاہ کی تقریبات اور عید، بقر عید کے تہوار آتے تو بھی سنجیدہ صاحبہ بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ہمیشہ ایثار کا ثبوت دیتیں۔
چند برس قبل اپنی بیوی کے انتقال کے بعد وہ صاحب فراش ہوگئے، فالج کے حملے نے جسم کے ایک حصے کو متاثر کیا جو ان کی حرکات و سکنات میں رخنہ انداز ہوا تو گوہر صاحب بڑے مایوس و اداس دکھائی دیتے تھے جس کی اصل وجہ نماز کی باجماعت ادائیگی نہ ہونا تھا۔ بلاشبہ ہر مسلمان کی یہی آرزو ہونی چاہیے کہ جب تک سانس ہے اس فرض عبادت کی ادائیگی کا اہتمام کرے کیوں کہ یہی جنت کی کنجی ہے اور جس پہلے سوال سے سامنا ہوگا وہ نماز کے حوالے سے ہے۔ وہ اپنے احباب کی دعائوں کے نتیجے میں بہت جلد صحت یاب ہو کر پہلے مسجد اور پھر احباب سے تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے۔ اسلامی نظریہ صحافت کے علمبردار کی حیثیت سے پروفیسر سید مختار الحسن گوہر کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کی صحافتی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے تھک کر نہ بیٹھنے والے اس مجاہد کے قلم کا اعجاز مجھ پر نہیں لاتعداد قارئین پر عیاں ہے۔ آپ کی تحریریں اصلاح معاشرہ کی خاطر ہوا کرتی ہیں۔ وہ اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کرنے کے لیے پرانے موضوعات کو نئے ڈھنگ میں اپنے کالموں کی زینت بناتے رہے وہ محض گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔ سید مختار الحسن گوہر انتہائی ملنسار، سلام میں پہل کرنے والے، دینی فہم سے آراستہ، دیانتدار اور امانتدار، خدمتِ انسانی کے جذبے سے سرشار، ہمدرد، راست گو، متقی و پرہیز گار انسان تھے۔ جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے انہوں نے مولانا مودودیؒ کی تحاریر کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اس فکر کو اپنی زندگی میں رچا بسا کر کامیاب رہنے کا اصول سیکھ لیا تھا۔ وہ حلال و حرام میں تمیز کرنا جانتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ سخت سے سخت حالات میں ربّ کی رضا میں راضی رہے۔ دُنیاوی کامیابی ان کے بہت قریب آئی مگر اخروی کامیابی کے متمنی دھوکے اور فریب سے دور بہت دور، اپنی منزل پر نظر جمائے یقین محکم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے بڑے ہوئے تو دنیا کا آرام و سکون بھی انہیں میسر ہوا اور وہ شاہراہ زندگی پر کامیاب سفر گزارتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ رب رحمان و کریم نے اپنے ایسے ہی بندوں کے لیے فرمایا ہے۔
’’اے اطمینان پانے والی روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے ممتاز بندوں میں داخل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا‘‘۔