بھارت کی پاکستان دشمنی،حکمران کب سمجھیں گے؟۔

652

بھارت کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا جب کہ پلواما واقعے پر پاکستان کا موقف سچ ثابت ہوگیا۔ اعلیٰ ترین سطح پر بھارتی فیصلوں کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا ہے۔ بھارت کے بدنام زمانہ اینکر ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈیننس ریسرچ کونسل کے سربراہ پراتھو داس گپتا کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ چیٹ لیک ہوگئی ہے۔ بھارت کی ان دو شخصیات کی گفتگو سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارت نے پلواما میں خود اپنے 40 فوجیوں کو مروایا اور اس کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس سلسلے میں جو آنسو بہائے وہ مگرمچھ کے آنسو تھے۔ مذکورہ شخصیات کی گفتگو سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ ارنب گوسوامی بالاکوٹ پر بھارت کے حملے اور کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے بھی قبل از وقت آگاہ تھا۔ ارنب گوسوامی نے پراتھو داس گپتا کو بالاکوٹ واقعے سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ پاکستان کے خلاف بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔ یہ ایک تاریخی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت نے کبھی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ اوّل تو پاکستان بنے گا نہیں اور بن گیا تو چلے گا نہیں۔ قائداعظم کی مدبرانہ قیادت میں پاکستان ایک حقیقت بن کر اُبھرا۔ یہ بھارت کی متعصب ہندو قیادت کے لیے بڑی مایوس کن بات تھی۔ چناں چہ بھارت نے پاکستان کے حصے کے مالی وسائل روک لیے۔ ہندو قیادت نے مسلمانوں کو پاکستان کی سزا دینے کے لیے مسلم کش فسادات کرائے۔ ہندو قیادت نے اس سلسلے میں سکھوں کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ ورنہ مسلمانوں اور سکھوں میں مخاصمت کی کوئی تاریخ نہ تھی۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک توحید پرست تھے اور سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب میں مسلم صوفیا کے اقوال شامل ہیں۔ بھارت کی ہندو قیادت چاہتی تو قیام پاکستان کے بعد پاک بھارت تعلقات بہتر ہوسکتے تھے مگر بھارت کی ہندو قیادت پاکستان کے تعاقب میں نکل کھڑی ہوئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مشرقی پاکستان، پاکستان کے حکمران طبقے کی حماقتوں اور سازشوں سے الگ ہوا لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارت کی عسکری مداخلت کے بغیر مشرقی پاکستان بنگلادیش نہیں بن سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی پاکستان کی بڑی ناکامی تھی اور بھارت کو اس ناکامی پر مطمئن ہوجانا چاہیے تھا مگر بھارت کی متعصب وزیراعظم اندرا گاندھی نے اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ اندرا گاندھی کے اس خطاب سے ثابت ہوگیا کہ بھارت کی ہندو قیادت کو پاکستان ہی سے نہیں اس کے نظریے سے بھی نفرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد بچے کھچے پاکستان کے خلاف سازش جاری رکھیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اندرا گاندھی نے 1984ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ایم آر ڈی کی تحریک سے کھل کر ہمدردی کا اظہار کیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی پیدا کردہ بدامنی کی پشت پر بھی بھارت موجود تھا۔ اس وقت بھارت بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اتفاق سے پاکستان بھارت کے جاسوس کلبھوشن کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوا۔ کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ بھارت بلوچستان کی آگ کو بھڑکا رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ بھارت کی ہندو قیادت اکھنڈ بھارت کے تصور پر یقین رکھتی ہے۔ اکھنڈ بھارت میں پاکستان ہی نہیں بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ، انڈونیشیا تک شامل ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں کے اسکولوں میں اس وقت ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں اکھنڈ بھارت کا تصور موجود ہے۔ لیکن بھارت کی اصل دشمنی پاکستان سے ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے کبھی بھارت کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی کو سمجھ کر دیا نہ بھارت کے خلاف صف آرا ہونے کا حق ادا کیا۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے وقت بھارت اپنی ساری فوجی طاقت کو چین کی سرحد پر لے آیا تھا۔ اس موقع پر چین کی قیادت نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ آپ کے لیے موقع ہے آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں۔ بدقسمتی سے یہ بات امریکا کے علم میں آگئی اور امریکا نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ بھارت سے کشمیر لینے کی کوشش نہ کریں۔ آپ چین بھارت جنگ کے ختم ہونے کا انتظار کریں۔ ہم اس جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر حل کروادیں گے۔ لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھارتی پنجاب میں خود خالصتان کی تحریک برپا کی اور خود ایک نازک مرحلے پر سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف تو بھارت نواز بن کر اُبھرے۔ انہیں مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں بلایا اور بدقسمتی سے میاں نواز شریف ایک فدوی کی طرح مودی کی تقریب حلف برداری میں گئے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی بھارت سے بڑی توقعات باندھی ہوئی تھیں۔ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت میں نریندر مودی سے ملاقات کرچکے تھے اور پاکستان اور بھارت کے مشترکہ ایٹمی پلانٹ کی تجویز پیش کرچکے تھے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا ہے کہ بھارت کیا ہے۔ چناں چہ انہوں نے پوری جرأت کے ساتھ نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی اور ہندوتوا کی تحریک کو نازی ازم کی روشنی میں بیان کرنا شروع کیا۔ مگر اب عرصے سے وہ بھی مودی اور بھارت کے خلاف خاموش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کب بھارت کی پاکستان دشمنی کو پوری طرح سمجھے گا اور وہ کب بھارت کی بھرپور مزاحمت کا حق ادا کرے گا۔ پاکستان کے حکمران طبقے کو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کی پاکستان دشمنی نہ اتفاقی ہے نہ عارضی ہے بلکہ یہ سوچی سمجھی ہے اور دائمی ہے۔ بھارت کے سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے کو قائد اعظم سے سیکھنا چاہیے۔ قائد اعظم نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر بھارت نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ بُرا سلوک کیا تو پاکستان بھارت میں مداخلت کرے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کے مسلمانوں کے دفاع کا کیا خود پاکستان کے دفاع کا بھی حق ادا نہیں کررہا۔ بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ باتوں سے کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔