کورونا وائرس: امریکا و یورپ میں بوڑھے لوگوں کو مرنے کیلیے چھوڑ دیا گیا

902

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) امریکا، برطانیہ و یورپ سمیت کورونا وائرس کی بیماری نے ایک عالمی وباکی صورت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، یورپ اور امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک میں جہاں صحت کی صورتحال بہت بہتر ہے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور اب تک ہورہی ہیں، ان ہلاکتوں میں بڑی تعداد میں ضعیف افراد ہلاک ہوئے‘ان ہلاکتوں کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے لاپروائی بھی ہے جبکہ خاندانی نظام نہ ہونے اور اولڈ ہاؤسز بھی ہلاکتوں میں اضافہ ایک وجہ بنی ، جبکہ معیشت کی دوڑ میں سبقت کے حصول کیلیے بوڑھے اور پنشنرز کو مالی بوجھ سمجھنے نے بھی اہم کردار ادا کیا ، اسی لیے اولڈ ہاؤسز میں رہائش پذیر افراد کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے جس سے ہلاکتوں میں کئی گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔یورپی ممالک قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں کم کھاتے ہیں سورج کم نکلنے سے بھی انسانی جسم میںوٹا من ڈی تھری کی کمی ہوجاتی ہے ،یورپ میںچونکہ خاندانی نظام موجود نہیں ہے لو گ ذہنی تناو سے بچنے کے لیے نشہ آور چیزوںکا استعمال زیادہ کرتے ہیں نفسیاتی طور پر انسان مطمئن زندگی گزار رہا ہو تو قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے، کو رونا وائرس کے پھیلا ؤ کی ایک بڑی وجہ غیر شادی شدہ طرز زندگی میں بے راہ روی اور شراب نوشی کو اس وبا کے پھیلاؤ کے سہولت کار کے طور پر دیکھا جارہاہے، وبا میں ایسے تمام ریستوران، پب ، کلب، موسیقی کے کنسرٹ ، کھیلوں کے انعقاد اور سیاسی اجتماعات وائرس کے پھیلاؤ کاسبب ہیں،امریکا اور یورپ میںکو رونا کا شکا ر سب سے زیادہ ضعیف شہری بنے، زیادہ سرمایہ کمانے کی دوڑ میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے اینٹی بایوٹک ادویا ت اورزندگی کے تحفظ کے لیے جراثیم سے بچائو کا تصور دیکراسپرے ، کیمیکل و دیگر پروڈکٹ کا استعمال اسقدر بڑھا دیا کہ انسانی قوت مدافعت ہی کمزور پڑ گئی ۔ان خیالات کا اظہار ماہر امراض سینہ وتنفس ڈاکٹر خالد مشتاق ،جرمنی میں مقیم پاکستان کے معروف دانشور سرور ظہیر غزالی اور جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونی کیشن کے پر وفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے جسارت سے خصوصی بات چیت کر تے ہوئے کیاا س سوال امریکا اور یورپ میں کورونا کے پھیلا ؤ اور بڑی تعداد میںہلاکتوں کے اسباب ؟کے جوب میں ڈاکٹر خالد مشتاق نے کہا کہ امر یکا اور یورپ میں کو رونا کے پھیلا ؤ کے اسباب کو سمجھنا بہت سادہ ہے ، کو رونا کا مرض قوت مدافعت کی کمی پر انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے ، انسان کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے غذا کی بہت اہمیت ہے ، جنہیں اینٹی اوکسیڈنٹ کہا جاتا ہے ،ایشائی ممالک میں کچن میں چند بنیادی اینٹی اوکسیڈنٹ غذاؤں کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ، جس میں دار چینی ، چھوٹی الا ئچی ، ادرک ، لہسن ، پودینہ ،مرچیں اور پیاز شامل ہیں یہ سات چیزیں اینٹی اوکسیڈنٹ ہیں ان اجزاء کے کھانے سے انسانی جسم میں قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے ،دنیا میں کہیںبھی اینٹی اوکسیڈنٹ دوائیں موجود نہیںہیں یہ صرف غذاؤں سے ہی حاصل ہوسکتی ہے، یو رپ میں سورج کم نکلتا ہے اس لئے وہاںوٹا من ڈی تھری کی کمی اکثر لو گو ں میںہوتی ہے ،اس طر ح ان کی قوت مدافعت متا ثر ہوتی ہے ، تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کی نفسیاتی صحت اچھی ہوگی تو اس کی قوت مدافعت مضبوط ہوگی ، ایشائی ممالک میں افراد خاندانی نظام سے جڑے ہوتے ہیںاس لیے ان میں نفسیاتی صحت اچھی ہوتی ہے۔ یورپ میںچونکہ خاندانی نظام موجود نہیںہے لو گ ذہنی تناو کا شکار رہتے اس کو دور کرنے کے لیے نشہ آور چیزوںکا استعمال زیادہ کرتے ہیں اس طرح ان کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، انہوںنے کہا کہ یورپی ممالک میں ہاف کوک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال کیا جا تا ہے،جسے ہاٹ ڈاگ ( گرم کتے) برگر ، پیزا ودیگر اشیاء شامل ہیں یورپی ممالک قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں کم کھاتے ہیں او ر وہاںتازہ پھل اور سبزیاں نہیں ملتی جس کی وجہ سے ان میں قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے ۔جرمنی میں مقیم پاکستان کے معروف دانشور سرور ظہیر غزالی نے کہا کہ امریکا، برطانیہ و یورپ سمیت کورونا وائرس کی بیماری نے ایک عالمی وبا کی صورت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دوسری لہر بھی موسم سرما میں ہی شدت اختیار کر رہی ہے‘ اس کا شکا ر سب سے زیادہ معمر افراد ہوئے ہیں یورپ میں اس عمر کے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، سب سے زیادہ اموات کے اس گروپ میں 80سال سے بڑی عمر کے افراد شامل ہیں‘ یورپی طرز معاشرت میں معمر افراد کو اولڈ ہاسٹل یعنی ضعیف شہریوںکی قیام گاہوں میں چھوڑ دیا جا تا ہے جہاں ایس او پی کا خیال نہیںرکھا جاتا، یورپ میں کورونا وائرس سے متاثرہ سب سے زیادہ ضعیف شہریوں کی قیام گاہیں ہی بنی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں ترکی میں ہر روز ایسے کرفیو متعارف کرائے گئے جن میں صرف بزرگ شہریوں کو باہر نکلنے کی اجازت دی گئی اور اس دوران تمام دیگر شہریوں کو گھروں میں محصور کیا گیا‘ یورپ میں بے راہ روی اور شراب نوشی کو اس وبا کے پھیلاؤٔ کے سہولت کار کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ یورپ کا یہ فرض کر لینا کہ وبا یورپ میں نہیں پھیلے گی ان کی کوتاہی اور لاپروائی کا واضح ثبوت ہے ‘نوجوان افراد جن میں وائرس سے پھیلنے والی بیماری کے اثرات نمودار نہیں ہوتے مگر بڑی عمر کے افراد میں بیماری تیزی سے پھیلاؤ کاسبب بنی ‘یورپ ویکسین کے معاملے میں سب سے پیچھے ہے۔ گو کہ سب سے بہترین ویکسین جرمنی میں تیار ہورہی ہے‘ جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمنونی کیشن کے پر وفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری نے کہا کہ کورونا کے پھیلا ؤ کے اسباب میں ماحولیات کے عوامل بھی کار فرما نظر آئے ، مغرب میں کورونا کا ظہور خود ان کے اس عمل کا نتیجہ ہے جو سولہویں صدی کے بعد سے اب تک جاری ہے جس میں کائنات کو محض دولت کمانے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ مغرب میں مذہب مخالف تحریک چلائی گئی پیسہ کمانا اور سرمایہ میں اضافہ کرنا ترجیحات میں شا مل کر لیا گیا ‘ دولت کے حصول کے لیے قدرتی ماحول کو اس قدر نقصان پہنچایا گیا کہ اب اسموگ، ہیٹ اسٹروک اور ماحولیات کے مسائل کائنات کو تو تباہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے بیماریوں نے ایک عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ علاج کے بجائے بیماری کے خطرات ے نمٹنے کے لیے، بیماری سے پہلے ہی دوا یعنی ویکسین کا کلچر پیدا کر دیا گیا۔ 1950ء کے بعد انہی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے پنسلین کی فروخت میں بے پناہ اضافے کیا ، جبکہ سو سے زائد انٹی بائیوٹک ادویات کو بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا گیاان ادویات کے استعمال سے انسانی قوت مدافعت میں کمی واقع ہونے لگی۔حیوانا ت کی ایک بہت بڑی ماہر گوڈل کا کہنا ہے کہ کورونا جیسے وائرسوں کی ہم نے بہت پہلے پیش گوئی کردی تھی، جنگلی حیاتیات کو سائنس، صنعت کاری اور کاروبار کے لیے جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے، جنگلات تباہ کیے جا رہے ہیں اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔