پاناما کے بعد براڈ شیٹ بھی عوامی ایشو بن گیا، شہزاد اکبر

300

اسلام آباد ( آن لائن )وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ معاملے میں جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں کی گئیں ڈیلز اور دیے گئے این آر اوز کی قیمت ہے،حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظر عام پر لانا چاہتی ہے جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا ان کے موکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں،سال 2000ء میں جون کے مہینے میںنیب اور براڈ شیٹ کے مابین اثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا، جس کے بعد جولائی 2000ء میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی کے ساتھ معاہدہ ہوا،این آر او اور تصفیے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب میںشہزاد اکبر کاکہنا تھا کہ ہمارے وکلا نے براڈ شیٹ سے متعلق فیصلے منظر عام پر لانے کے لیے رابطہ کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں کوانٹم اور ہائی کورٹ کے احکامات تھے، عدالت کا فیصلہ اپیل پر ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے قابل رسائی تھا البتہ واجب ادا کی رقم کے تعین کے حوالے سے کوانٹم کا حکم پرائیویٹ تھا۔ان کے مطابق وزیراعظم کے حکم پر ہم نے اپنے وکلا کے ذریعے براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کیا گیا اور ان سے تحریری طور پر ان سے رضامندی حاصل کی گئی کہ حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتی ہے جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے موکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جون 2020 میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہٰذا اس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے، یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکائونٹس پر لیا گیا۔شہزاد اکبر کے مطابق 31 دسمبر 2020 کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے رکھنے سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ماضی کی ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو این آر او اور تصفیے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔