اپنی مرضی کا مالک ایک سے دو سال کا بچہ – ڈاکٹر اظہر چغتائی

737

”ہر چیز کو ”نو“، بس اپنی مرضی کی چیزیں… غصہ کرنے لگا ہے، ہر چیز میں گھس جاتا ہے، چیزیں اٹھا کر اِدھر اُدھر پھینکنے لگا ہے۔ سر کیا یہ نارمل ہے؟“ مسلسل وہ اس بچے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی، مگر وہ گود سے فرش، فرش سے ٹیبل کے نیچے… ایک سال کا بچہ، اپنی دنیا، اپنے ماحول کو جاننے کی کوشش کررہا تھا اور ماں ہلکان تھی۔

عام طور پر پہلا قدم، پہلا دانت ایک سال کے آس پاس ہی نمودار ہوتا ہے اور تقریباً دس گیارہ ماہ میں پکڑ کر چلنے والا بچہ، بغیر سہارے کے قدم بڑھاتا ہے۔

آپ کے منع کرنے کو اچھی طرح سمجھتا ہے مگر نئی چیزوں کی دریافت اس کو مسلسل آپ کی طے کردہ حدود توڑنے پر اکساتی رہتی ہے۔ وہ صرف جاننا چاہتا ہے، محسوس کرنا چاہتا ہے کہ وہ کیا کچھ کرسکتا ہے۔ اسی دوران وہ آپ کی طرف بھی دیکھتا رہتا ہے کہ آپ کا ردعمل کیا ہے؟

آپ کی خاموشی اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے، اور آپ کی ناراضی تھوڑی دیر کے لیے اس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور تو کردیتی ہے، مگر جوں ہی موقع ملتا ہے وہ دوبارہ اس چیز کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، بھولتا نہیں۔

دریافت کرنے کی جستجو اس کو مسلسل آمادہ رکھتی ہے کہ بس کچھ نیا کرتب دکھاؤ۔

ایک سال میں چلنا شروع کرنے والے بچے تقریباً اٹھارہ ماہ کی عمر تک قدم جما کر چلنا شروع کردیتے ہیں اور بہت کم لڑکھڑاتے ہیں۔

اگر کوئی بچہ اٹھارہ ماہ کی عمر تک چلنا شروع نہ کرے تو اس پر تھوڑی سی تشویش ضروری ہے۔ شاید فیملی میں دیر سے چلنے کی روایت ہو، یا پھر وٹامن ڈی کی کمی۔ بہرحال یہاں ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔

کھانے کے معاملے میں بعض بچے تنگ کرتے ہیں، اگرچہ کہ ان کو چھے ماہ کی عمر سے ٹھوس غذا کھلانے کی کوشش ہوتی ہے، مگر پھر بھی وہ کھاتے نہیں، صرف دودھ پر ہی گزارا کرنا چاہتے ہیں۔ یہیں پر مائیں عام طور پر غلطی کرجاتی ہیں، مثلاً جو بچہ ماں کے دودھ پر ہے اس کو بغیر کسی وجہ کے دودھ کی بوتل پلانا شروع کردینا، یا پھر اگر کھانے پر راضی نہیں تو صرف دودھ پلاتے رہنا، کھانا کھلانے کے لیے محنت کے بجائے جلد بازی کہ ڈاکٹر صاحب کیا کریں، گھر کا کام کون کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

کچھ چیزیں سمجھنے کی ہیں۔ جب ہم بچے کو کھانا کھلانا شروع کرتے ہیں تقریباً 6 ماہ کی عمر میں، تو ہم چمچے سے کھلاتے ہیں۔ اب جب وہ ایک سال یا اس سے زیادہ کا ہوگیا ہے تو جیسا اوپر ذکر آیا وہ اپنی دنیا دریافت کرنا شروع کرتا ہے، ایسے میں پکڑ کر زبردستی کھانا کھلانے کی کوشش عام طور پر ناکام ہی ہوتی ہے۔

اب آپ کو دیکھنا ہے کہ کب اس کو بھوک لگتی ہے۔ جب اسے بھوک لگے تو اگر آپ اس کے سامنے پلیٹ میں اس طرح کھانا رکھیں جو اس کے ہاتھ میں آسانی سے فٹ ہوجائے، یعنی اس کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان آجائے، یا اس کی انگلیاں اس کو پکڑنے کے قابل ہوں تو وہ عام طور پر کچھ کھانا گرائے گا اور کچھ منہ میں ڈال لے گا۔ جو اس کو پسند ہو اس غذا سے شروع کریں، اس تکنیک کو فنگر فیڈنگ کہا جاتا ہے۔

اگر آپ کو یاد ہو، پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ بچہ ہر چیز کو اپنے منہ میں ڈال کر چیک کرتا ہے، بس اس کی اسی عادت کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی غذا جو اس کی انگلیوں میں فٹ ہوجائے اور منہ میں بھی فٹ ہوجائے وہ آسانی سے کھانے پر راضی ہوجاتا ہے۔ بچے کو پہلے اس کی پسند کا کھانا کھلائیں، پھر وہ کھانا جو آپ اس کو کھلانا چاہیں۔ مختلف کھانے ٹرائی کریں، بار بار ٹرائی کریں، ایک بار نہیں کھاتا تو ماں کو ہار ماننے کی ضرورت نہیں۔ بچہ ایک کلین سلیٹ ہے، آپ آج اس پر جو لکھیں گے وہ اس کی زندگی پر نقش ہوجائے گا۔

کھانا صرف بھوک کے وقت کھلائیں۔ اتنا ہی کھلائیں جتنا وہ کھانا چاہتا ہے۔ دودھ پلانے کے فوراً بعد بالکل بھی نہ کھلائیں۔ میٹھی چیزیں کم کھلائیں۔ جوس، شربت وغیرہ وغیرہ نہ دیں کیونکہ اس میں صرف شکر ہے جو بھوک کو فوراً ختم کردے گی۔ مزہ تو بہت آئے گا مگر غذا کے دیگر اجزا یعنی پروٹین، چکنائی اور وٹامنز وغیرہ اس میں شامل نہیں ہیں۔

یاد رکھیں، بچے کی تربیت کے یہ مواقع آپ اپنی جلدبازی اور پریشانی سے ضائع کردیں گی تو بعد میں مزاج میں تبدیلی بہت مشکل کام ہے۔

چلیے کھانے کی بات سے دوبارہ اس کی حرکات پر واپس آتے ہیں۔ ڈیڑھ سال سے دوسال کا بچہ اچھا چلنے لگتا ہے۔ کھڑا ہوا بچہ زمین پر اکڑوں (Squating) بیٹھ سکتا ہے، زمین پر ڈبلیو کے لیٹر کی طرح ٹانگیں پھیلا کر بیٹھتا ہے، جوں جوں اس کی عمر دوسال کے قریب پہنچتی ہے وہ دوڑنے کے قابل بھی ہوجاتا ہے، اور بہت ہی بے دھڑک بھاگتا ہے۔ اس چکر میں اکثر ٹکراتا رہتا ہے اور چوٹیں لگتی رہتی ہیں۔

دوسال کا بچہ زمین پر پڑی ہوئی بال کو پاؤں سے ٹھوکر مارسکتا ہے۔ اگر اس کو کھلونا بلاکس دیں تو دو بلاکس کا ٹاور بنا سکتا ہے۔ کاغذ پر پینسل سے لکیریں لگانا اور دیواروں پر نقش و نگار بنانا شروع کردیتا ہے، اور ماں سے پٹائی بھی کھانا ہے۔

نئی نئی چیزیں سیکھنے کے چکر میں اس کو اس کے جسم کے مختلف حصوں کے نام یاد کروا سکتے ہیں، اور وہ ان کو پوائنٹ آؤٹ کرسکتا ہے۔ سہارا لے کر سیڑھیاں چڑھنا شروع کردیتا ہے اور اترتے ہوئے سیڑھیاں جلدی اترنے کے چکر میں سیڑھیاں چھوڑ کر اترتا ہے، اس لیے اس وقت بڑی نگہداشت کی ضرورت ہے۔

کچھ الفاظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دو الفاظ کو ملا کر بھی بولنے لگتا ہے، جیسے ماما آؤ، باہر چلو، مجھے دو وغیرہ وغیرہ، اپنی پسند کی چیزوں کے نام اس کو یاد ہوتے ہیں۔

آپ پھر پریشان ہیں کہ کھاتا کچھ نہیں… چلیں دوبارہ بات کرلیتے ہیں۔ زبردستی کھانا نہیں کھلا سکتے، صرف دوستی ہی ایک طریقہ ہے جو کہ کارآمد ہے۔

بچے کے ساتھ ٹائم لگائیں، ایک بہت ہی کام کی بات۔

دوسال کے قریب بچہ آپ کی باتوں کی مخالفت کرتا ہے، یعنی آپ کچھ کھلانا چاہیں تو وہ نہیں کھائے گا۔ مگر آپ اگر اس کے سامنے مزے لے لے کر کھائیں تو آپ کی ضد میں آپ سے چھین کر کھانے کی کوشش کرے گا۔

اس کے علاؤہ دو سال کا بچہ نقال یعنی کاپی کیٹ بھی ہوتا ہے، آپ کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو آپ جو کام کروانا چاہتے ہیں وہ کام خود شروع کردیں، وہ آپ کی نقل کرے گا، آپ کی طرح صفائی کرنے کی کوشش وغیرہ۔

اسی طرح اس کو دکھا دکھا کر کھائیں، وہ بھی کھانے کی طرف لپکے گا۔

ان تمام باتوں کے باوجود کچھ بچے غذائی نفرت (Food Aversion) کا شکار ہوتے ہیں، آپ کچھ بھی کرلیں وہ کھا کر نہیں دیں گے۔ ایسے بچوں کو بہت تحمل کے ساتھ، دوستی کرکے کھانا کھلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایک غذا کھلانے کے لیے پچاس مرتبہ بھی کوشش کرنی پڑتی ہے، اور اصول وہی کہ جو وہ کھانا چاہتا ہے اس کو پہلے وہ کھلائیں اور پھر وہ چیزیں جو تھوڑی محنت سے کھلائی جاسکتی ہوں، اور آخر میں وہ اشیاء جو آپ اس کو کھلانا چاہیں۔

اگر آپ نے کسی مجبوری کی وجہ سے دودھ کی بوتل لگائی ہے تو وہ بھی ایک سال کے بعد چھڑوانے کی کوشش لازمی کریں، کیونکہ دودھ کی بوتل بچے کے نہ صرف دانت خراب کرتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ پیٹ کے انفیکشن، ڈائریا، کان کے انفیکشن، اور گلے کو خراب کرنے کا بھی باعث ہے۔

ایک سال کے بعد بچے کو دودھ کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی شروع میں تھی، اب اس کو فنگر فوڈ کے ذریعے کم دودھ پر راضی کیا جاسکتا ہے۔

بچے کا اگر پیٹ بھرا ہوا ہوگا تو اس کو دودھ کی طلب بھی کم ہوگی، اب چونکہ آپ پر کھانا کھلانے میں کوئی پابندی نہیں اس لیے گھر میں پکنے والی ہر چیز کھلانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ آپ بچے کو مچھلی بھی کھلا سکتے ہیں، دودھ پلانے کے ساتھ ساتھ۔ ایک سال بعد آپ اس کو شہد بھی کھلا سکتے ہیں، اور شہد جسم کے نظام مدافعت کو تقویت فراہم کرتا ہے۔

سب سے اہم بات: کھانا کھلانے کی تربیت کے دوران کسی بھی قسم کی ترغیب یعنی موبائل فون یا ٹی وی انتہائی غلط کام ہے، اس سے مکمل طور پر بچنے کی ضرورت ہے۔ اسکرین کا استعمال کھانے کے دوران بچے کی نفسیاتی نشوونما کے لیے بہت ہی برا ہے ۔

کھانے کے اوقات کو خوشی کے اوقات بنائیں، یعنی کھانا بچے کو اس طرح پیش کریں کہ وہ سمجھے اس کو اہمیت دی گئی ہے۔

ان تمام باتوں کے ساتھ ایک سال کی عمر میں، MMR, Chicken pix کی ویکسین ضرور لگوائیں۔

اور ڈیڑھ سال کی عمر میں DTaP مع پولیو کے قطرے اور دیگر ویکسین جو حکومت پاکستان کے پروگرام میں شامل ہوں۔

ان تمام نارمل باتوں سے ہٹ کر اگر آپ کو بچے کی کوئی بھی بات عجیب لگے تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔ بعض اوقات بظاہر چھوٹی سی بات کسی بڑی بیماری کی علامت ہوتی ہے، مثلاً اگر کوئی بچہ دو سال کی عمر تک کچھ نہیں بولتا تو ہوسکتا ہے کہ اس کی سماعت کی خرابی ہو، یا وہ دماغی صحت کے معاملے میں بدقسمتی کا شکار ہو۔ اس لیے چھوٹی باتوں کو بھی نظرانداز نہ کریں۔

(This article was first published in Friday Special.)