محنت کشوں کے لیے فلاحی اداروںکی کارکردگی

228

شفیق غوری
جسارت صفحہ محنت نے ایک انتہائی اہم و پیچیدہ موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے محنت کشوں کی رائے اور سروے سے متعلق عندیہ ظاہر کیا ہے۔ یعنی محنت کش طبقہ کو سوچنے سمجھنے اور ان کے لیے قائم فلاحی اداروں سے متعلق شعور و آگاہی کی دعوت فکر دی ہے جو کہ یقینا صاحبان اقتدار و اختیار کی نگاہ میں جرم و بغاوت کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس موضوع پر مظلوم و محروم محنت کش تو بمشکل ہی لب کشائی کر پائے گا البتہ ان کی قیادت پلانٹ لیول CBA لیڈر شپ تو ان فلاحی اداروں کی کارکردگی و کردار سے بخوبی واقف ہے کیونکہ وہ روزمرہ اپنے محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے ان اداروں کے ارباب اختیار سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کی کارکردگی و کردار پر نہ صرف تقریر بلکہ تحریری طور پر اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ کسی مصلحت کا شکار نہ ہوں۔ اس سے بھی بالاتر مزدور فیڈریشنوں سے منسلک ٹریڈ یونین لیڈر شپ خصوصاً وہ جو سندھ سوشل سیکورٹی، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ اور وفاقی ادارہ EOBI کی سہ فریقی باڈی میں بطور محنت کش طبقہ کے نمائندہ نامزد کیے گئے ہیں وہ اگر لب کشائی کی زحمت فرمائیں تو ان سے بہتر و مفصل انداز میں فلاحی اداروں کی کارکردگی و کردار پر کوئی اور روشنی نہیں ڈال سکتا ہے۔ ویسے عوام الناس اور خود محنت کش طبقہ کی ایک کثیر تعداد کو علم ہی نہیں ہے کہ ان اداروں سے فلاحی مراعات سرکاری خزانہ سے نہیں بلکہ یہ ان کا اپنا فنڈ جس کے لیے صنعت کار اپنے مزدوروں کی فلاح وبہبود، علاج معالجہ، تعلیم ، ہائوسنگ اسکیم کے لیے رقم مہیا کرتا ہے۔ جبکہ ان فلاحی اداروں میں ملازم صاحبان اختیار افسر شاہی کی تنخواہ و دیگر مراعات کے لیے بھی اس فنڈ سے ادائیگی کی جاتی ہے نہ کہ سرکاری خزانہ سے۔ اس پس منظر میں بظاہر ان اداروں کا انتظام سہ فریقی باڈی کے سپرد ہے۔ گرچہ راقم اس حوالے سے اپنی رائے کو محدود رکھتے ہوئے صرف سروے کے دو سوالات (1) فلاحی ادارے مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ (2) کیا ان اداروں کا کردار مثبت ہے؟ پر مختصر الفاظوں میں کارکردگی اور کردار کے حوالے سے جرأت کا اظہار کررہا ہے کہ عوام الناس اور محنت کش طبقہ کی جانکاری ہوسکے۔ سندھ سوشل سیکورٹی کے اسپتالوں سے طبی سہولیات کی فراہمی کیسی ہے، محنت کش ازخود واقف ہے لیکن کردار کے حوالے سے عرض ہے کہ گزشتہ ماہ ولیکا اسپتال میں جعلی ادویات کی خریداری جس کے اخراجات 67 کروڑ ہیں ایک انکوائری NAB کی ٹیم نے کی اور 14 ذمہ دار افراد کے خلاف NAB کورٹ میں مقدمہ دائر کیا، جس میں 3 مفرور افراد کو ولیکا اسپتال سے گرفتار کیا گیا، بقایا
ملزمان سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس میں سابق کمشنر، موجودہ ڈائریکٹر پروکیورمنٹ ڈاکٹر سعادت میمن اور سابقہ MS ڈاکٹر ظہیر عباس خواجہ، ڈاکٹر انیس قادر منگی اور ڈاکٹر جاوید راجپوت، وقاص وہاب شامل ہیں۔ باوجود اس الزام و مقدمہ کے کسی بھی متعلقہ فرد کو نہ ملازمت سے معطل کیا گیا نہ ہی موجودہ عہدے سے تبادلہ کیا گیا ہے۔ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی کارکردگی و کردار کوئی پوشیدہ نہیں، محنت کش جائز گرانٹ و فلیٹ کے الاٹمنٹ آرڈر و قبضہ کے لیے رشوت بطور نذرانہ ادا کرنے کے لیے مجبور ہے۔ ان صاحبان اختیار کی دیدہ دلیری و غضب کرپشن کی کہانی یہ ہے کہ غریبوں کا فنڈ اور 9 ارب کی کثیر رقم کی ڈاکا زنی، یعنی بغیر زمین کی ملکیت 1800 فلیٹوں کی اسکیم جامشورو میں کاغذوں پر تیار کی گئی جبکہ مختارکار کوٹری تحریری طور پر سندھ ہائی کورٹ کو مطلع کررہا ہے کہ مذکورہ زمین سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی ملکیت نہیں ہے۔ اس جعلی کاغذی ہائوسنگ اسکیم کے ضمن میں 3 تعمیراتی ٹھیکیداروں کو 75 کروڑ روپے کی ادائیگی بھی کردی گئی ہے اور 160 ورک چارج ملازم تنخواہ لے رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ ضعیف العمری پنشن EOBI تمام قواعد و ضوابط سے بالاتر موجودہ چیئرمین اور ان کے ہمنوا وفاقی حکومت سے ڈیپوٹیشن پر 3 سال یا 5 سال کی مدت کے لیے لائے گئے افسران کے لیے سرسبز چراگاہ ہے۔ چیئرمین کے من پسند جونیئر ترین افسر ادارہ کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ریجنل دفاتر جعلی ڈیمانڈ نوٹس برائے ریکوری کے ذریعے صنعت کاروں کو ہراساں کرتے ہیں اور مک مکا کرتے ہوئے نذرانہ اوپر تک بھجوارہے ہیں۔ مذکورہ تحریر کے ذریعے بلاکسی مبالغہ آرائی کردار و کارکردگی کیا مثبت و کیا منفی صاحبان نظر کے سپرد کررہا ہوں۔