پروپیگنڈا وار نیاجنگی حربہ

424

ففتھ جنریشن وارکوجاننے کے لیے اس کے طریقے کوسمجھناپہلی سیڑھی ہے۔ ریاست اور اس کے شہریوں پر دباؤ پیدا کرنے سے اس کاآغازکیا جاتا ہے۔ پھر مختلف ذرائع سے اس کے دفاعی نظام کو کمزور کردیا جاتا ہے۔ اس کاکامیاب تجربہ افریقی ممالک اور جنوبی ایشیا میں کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں سائبر حملے، مطلوبہ ریاست کے حساس مواد کا حصول یا اس میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرکے افراتفری پھیلانا، حکومتی کاموں میں رکاوٹیں پیدا کرنا ، سیاسی نظام میں دراڑیں ڈالنا، میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے اقوام کی ثقافت کو تاراج کرنا، حقوق کے نام پر معاشرے کو بغاوت پر اُکسانا، عسکریت پسند عناصر کی حمایت کرکے ریاست کی رٹ کو کمزور کرنا یا سیکورٹی اداروں کے خلاف استعمال کرنا، افواہوں کے ذریعے نفرت کی خلیج پیدا کرنا ان کارروائیوں کا قابل ذکر حصہ ہیں، جو ففتھ جنریشن وار میں کی جاتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی معاشی طور پر برباد کرنے لیے عالمی سازشوں کو استعمال کرتے ہوئے مقامی بینکوں پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے۔ گردشی قرضوں کی ایسی سرنگ میں دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں سے واپسی کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔ اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے ریاست پر عالمی پابندیاں اور عالمی اداروں کی جانب سے سخت ترین سرائط عائد کردی جاتی ہیں۔ ایسی تشہری جس سے ریاست کے عوام کا مورال تباہ ہو، کرنا بھی اسی ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔
فرسٹ جنریشن وار 17 ویں صدی سے 19ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس میں افواج ایک دوسرے کے مدمقابل گھوڑوں، نیزوں، تلواروں کا سہارا لے کر ایک دوسرے پرحملہ آور ہوتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ جدید جنگ کی طرف رُخ موڑ دیا گیا، تاہم 1618ء سے 1648ء تک کا 30 سالہ خونی دورجس میں عیسائیوں کے دو مشہور فرقوں کیتھولک اورپروٹسٹنٹ کے درمیان جنگ میں80لاکھ افرادمارے گئے۔1948ء میں امن معاہدہ عمل میں آنے کے بعد خودمختار ریاستوں کا تصور عمل میں آیا۔ یورپ کی کئی ریاستیں تاراج اورتقسیم ہوگئیں۔ کئی نسلیں نابود ہوگئیں اورہزاروں کنبے ایک دوسرے سے الگ کردیے گئے۔ مخلوط معاشرے کاقیام وجودمیں آگیا۔
سیکنڈ جنریشن وار 1850ء کے بعد شروع ہوئی اور آج بھی بہت کم یہ ماڈل زیر استعمال ہے۔ مورچوں میں بیٹھ کر میگزین گنز، مشین گنیں، توپیں، ٹینک اورجنگی جہازوں کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا۔ 28 جولائی 1914ء کو دنیا پہلی عالمی جنگ میں کود پڑی اور 11 نومبر 1918ء کوختم ہونے تک 2 کروڑسے زائدافراداس کاشکارہوچکے تھے اور اتنے ہی شدیدزخمی۔اس جنگ کے اختتام پر نیا یورپ، نئی خلیجی ریاستیں اور نیا روس وجودمیں آئے۔ مسلمانوں کاسب سے بڑانقصان یہ ہوا کہ خلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہو گیااورسلطنت عثمانیہ کا یورپ تک پھیلاہوا سورج غروب ہوگیا۔
تھرڈ جنریشن وار میں جنگ کے اندازبدل گئے۔ زیادہ فوج کے ساتھ اسلحہ کی بھی بہتات لازمی ہوگئی۔ اب خودکار اسلحے کے ساتھ طیاروں جہازوں کا وجود اور سمندروں پر غلبے کی جنگوں کا دور شروع ہوا۔ جنگوں کے لیے باقاعدہ حکمت عملی کو فوقیت دی جانے لگی۔ پراکسی وارکاستعمال بھی سامنے آیا، تاہم امن کاخواب زیادہ دیرتک قائم نہ رہ سکا اور دنیا 1941ء میں دوسری عالمی جنگ کاشکارہوگئی جو 1945ء تک جاری رہی۔ بعض جنگی محققین اورتجزیہ نگاروں کے مطابق ففتھ جنریشن وار کاآغازاسی جنگ میں شروع ہوگیا تھا۔ اس جنگ میں یورپ اوراس کے اتحادیوں نے ریڈیو، لاؤڈ اسپیکر اور اخبارات کو پروپیگنڈے کے لیے بھرپور استعمال کیا۔ دوسری طرف جرمنی کے تاریخی کردار جنرل گوئبلز کانام سامنے آیا، جس نے جنگی پروپیگنڈے میں تواتر کے ساتھ جھوٹ کی پالیسی کاسہارالیتے ہوئے کئی محاذوں پرجنگ کاپانسہ بدل دیااورمقابل افواج کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جنگ میں دراصل سب سے بڑا پروپیگنڈہ ہتھیارعوام اورفوج کوذہنی اعتبارسے دل برداشتہ کرکے ان کومغلوب کرناہوتاتھا۔
چوتھی وار فیئر، جس کاآغاز19ویں صدی میں ہوا۔ توپیں،ٹینک اور جدید خطرناک طویل فاصلے تک مار کرنے والے خودکار ہتھیاروں کے ساتھ دیوہیکل جنگی جہازبھی شامل ہوگئے۔ یہاں دوسری عالمی جنگ کے ہونے والے نقصانات پربھی نظرڈالناضروری ہے کہ اس خطے پران شیطانی قوتوں کے ہاتھوں کس قدر انسانیت کی تباہی اورناقابل یقین حدتک نقصان ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں ساڑھے 7 کروڑ لوگ مارے گئے، جن میں 2 کروڑ سے زائد فوجی تھے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ چین کے 2 کروڑ اور روس کے ایک کروڑ 68 لاکھ 25 ہزار افراد مارے گئے۔برطانیہ کے 3 لاکھ 84 ہزار افراد، امریکا کے 2 لاکھ 92 ہزار، جرمنی کی 76 فیصد فوج کا صفایا ہوگیا اور پہلی بار امریکا نے جاپان کے 2 شہروں ہیروشیما (31لاکھ) اور ناگا ساکی (25لاکھ) کی آبادی پر ایٹم بم برساکراپنی درندگی کااظہارکرتے ہوئے 56 لاکھ افراد کو چند منٹوں میں خاکستر کردیا۔ اس عالمی جنگ کے اختتام نے ’’زرد جنگ‘‘ کو جنم دیا۔ پہلی مرتبہ جنگ کے بعد ’’ریڈیو فری یورپ‘‘ یا ’’ریڈیو لبرٹی‘‘ کے نام سے 1949ء میں پروپیگنڈہ ریڈیوکی بنیادرکھی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں کئی ریاستیں وجود میں آئیں اور دنیا 2 بلاکس میں تقسیم ہوگئی۔ زیادہ حصے پر سرمایہ داری اوردوسرے حصے پرکیمونسٹ نظام نے ڈیرے ڈال لیے۔ دنیا میں ان ہی دو چودھریوں کا طوطی بولنے لگااوران کی مرضی سے دنیا بھر کی کاروباری، معاشی اور خارجہ پالیسیاں ترتیب دی جانے لگیں۔
ففتھ جنریشن وار ایک قیامت کی طرح دنیاپرنازل ہوئی ہے۔ اس میں وارتھیٹر (ڈیٹرمن) طے نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکرجنگ کرتی تھیں لیکن اب دشمن کودیکھے بغیرجنگ جاری ہے۔ دنیا آئیڈیازکی جنگ میں شامل ہوگئی ہے۔ اس کا آغاز ’’وارآف نیریٹو‘‘ یعنی بیانیے کی جنگ سے ہوتاہے اور اس کی معاونت کے لیے الیکٹرانک میڈیاکے ساتھ سوشل میڈیاکومیدان میں اتارا گیا ہے، جس کے لیے مفت ایپلی کیشن کی صورت میں یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، اسکائپ، انسٹا گرام اور دیگرمفت پلیٹ فارمز کا بے تحاشا استعمال، انٹرنیٹ کے ذریعے ہر جگہ اور شخص تک آسان رسائی کی اجازت دی گئی۔ منٹوں میں دنیا بھر کی افواہوں کو حقیقت کارنگ دے دیا جاتا ہے۔ مذہبی اقدارسے دورکرنے کے لیے مختلف فلموں، ڈراموں اور نام نہاد دانشوروں کو نوجوان نسل کوگمراہ کرنے کاکام سونپ دیا گیا۔ اخلاق باختہ ویب سائٹوں نے خاندانی نظام کوتباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ یعنی عمارت کو پہلے اندرسے کھوکھلا کرکے اسے کمزورکرنے کے عمل پربھرپورکام کیاجاتاہے، تاکہ یہ کسی بھی چیز کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہے اور پھر ان پر آخری چوٹ لگانے سے قبل اپنے اتحادیوں سمیت حملے کاجوازپیداکرنے کے لیے اسے اقوام عالم میں دنیا کے لیے ایک خطرہ ثابت کیا جاتا ہے اور پھر انتہائی بے دردی کے ساتھ نشانہ لگا کر صفحہ ہستی سے مٹانے کی کارروائی شروع کردی جاتی ہے۔قبضے کے

لیے ایجنٹوں کو استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ عراق، افغانستان، لیبیا اور دیگر ممالک میں ہواہے، تاہم یہ الگ بات ہے کہ افغان مجاہدین کی لازوال قربانیوں سے ان شیطانی قوتوں کوافغانستان میں دھول چاٹناپڑی ہے۔
اب وائٹ ہاؤس کے فرعون نے جنگ کی ایک نئی ظالمانہ پالیسی ’’پری ایمپٹیو‘‘ متعارف کروادی۔ مثلاًٹرمپ نے بغدادمیں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو یہ کہہ کرمروادیاکہ ہم نے ایران کوحملہ سے روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایاہے جبکہ ان کے پیش رو بش نے صدام حسین پر فرضی کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا الزام لگا کر صدیوں کی تہذیب کوخاک میں ملادیا۔ عرب بہار کے نام پر لیبیا کو تباہ کرکے اس کے معدنی اورتیل کے ذخائرپرقبضہ کرلیا۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں مزید دی جا سکتی ہیں، جس میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب کی لڑائی ہمیشہ سے صرف اور صرف اسلام سے رہی ہے۔
یہ ہے ففتھ جنریشن وار کاوہ بھیانک اور مکروہ چہرہ، جس میں عظیم تجارتی فوائد سمیٹنے کے لیے دنیاکے سامنے ایک ایساجوازپیش کیاجائے، جس سے اس کے تمام اتحادی خود کو ایسے خطرے میں محسوس کریں کہ وہ اپنی بقا کے لیے امریکی مشن کو اپنی زندگی سمجھ لیں۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بدنام زمانہ ’’نائن الیون‘‘ کا ایسا واقعہ رونما کیا گیا، جس نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اغیار کی ان چالوں کو سمجھتے ہوئے خود کو اس طرح تیارکریں کہ دشمن کومنہ کی کھانی پڑے۔