اسلامو فوبیا اور مغربی میڈیا کی مسلم دشمنی

369

(گزشتہ سے پیوستہ)
سمیع اور مالمیر (2017) نے ایک تحقیق میں یہ مطالعہ کیا کہ امریکی میڈیا میں 2001ء سے لے کر 2015ء تک جو نیوز اسٹوریز شائع ہوئیں، ان میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں لکھے گئے 670000 الفاظ میں اسلام اور مسلمانوں کو بنیاد پرست اور عسکریت پسند پیش کرتے ہوئے ان نتایج کی طرف اشارہ کیا گیا کہ اسلام اور مسلمان پرتشدد ہوتے ہیں۔
بیکر، گیبریلاٹوس اور میکنیری (2013) نے برطانیہ میں 1998ء سے لے کر 2009ء تک شائع ہونے والے 14 کروڑ 30 لاکھ الفاظ پر مشتمل مختلف مضامیں کا تجزیہ کیا جن میں قومی و نسلی شناخت، مختلف ثقافتی و مذہبی امور، کمیونٹیز، گروہوں اور تنازعات کے بارے میں متضاد خیالات وتصورات پر مبنی حوالہ جات تھے۔ مسلم دنیا، مسلمان معاشروں اور مغرب کے درمیان پائے جانے والے امتیازات و اختلافات کو اسلام اور مغرب کے تصادم کے طورپر پیش کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ یہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں اور بڑے تصادم کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی جو شکل پیش کی گئی، اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مسلمان دہشت گردوں کے لیے ہمدردری اور نرم گوشہ رکھتے ہیں کیوں کہ یہ معاشی طورپر پسماندہ اور قدامت پسند ہیں۔ ان مضامین میں مسلمانوں کو جس طرح پیش کیا گیا، اسے پڑھنے کے بعد مسلم سوسائٹی میں یقینی طورپر جذباتی تنائو پیدا ہو سکتا ہے۔
سعید(2007) نے ایک تحقیق میں استدلال کیا کہ برطانوی میڈیا میں مسلمان شہریوں کو غیر ملکی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میڈیا کی اس غلط بیانی کا تعلق اسلاموفوبیا سے ہے، جس کی جڑیں ثقافتی اختلافات میں ہیں۔ اس تحقیق میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ مغرب میں اگر کوئی غیر مسلم تشدد کرتا ہوئے نظر آئے تو اسے گھریلو تشدد قرار دے کر انفرای مسائل اور پریشانی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ یہی تشدد اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے وقوع پذیر ہو تو اسے اسلامی اور عالمی دہشت گردی کے گروپوں سے جوڑا جاتا ہے۔ اس طرح کی متعصبانہ رپورٹنگ سے میڈیا قارئین اور ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور اسلام کے بارے میں گمراہ کن خیالات کی اشاعت کو فروغ ملتا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں اسلام سے متعلق سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات اسلام پسند، انتہا پسندی، دہشت گردی، تشدد اورعسکریت پسندی ہیں۔ ان میں اسلام پسند کی اصطلاح ’’دہشت گردی‘‘ کے مترادف ہے اور دہشت گردی کے تناظر میں لکھے گئے مضامین میں اِسے، اِسی مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جون 2018ء کو بی بی سی کی ایک رپورٹ میں اصل خبر کا یہ نتیجہ اخذ کرکے بتایا گیا کہ ’’سیکورٹی اداروں کی توقع ہے کہ اسلام پسند دہشت گردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے اور کم از کم 2 مزید سال تک اس کی شدت کی سطح برقرار رہے گی‘‘ (دہشت گردی کی حکمت عملی، 2018ء صفحہ 3) اسی طرح دی گارڈین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’ایک عالمی انتہا پسند تحریک جو اب بھی جاری ہے تاکہ دنیا کو خطرات لاحق رہیں‘‘ ( برک 2019ء صفحہ 1)۔ ان رپورٹوں کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں ’’اسلام پسند‘‘ کا لفظ ’’دہشت گرد‘‘ کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ 3 جون 2018ء کو دی گارڈین نے ایک خبر دی کہ ’’برطانیہ کو اسلام پسندوں کی اسلامی دہشت گردی سے سخت خطرے کا سامنا ہے‘‘ (پریس ایسوسی ایشن 2018ء صفحہ 1) اس خبر سے یہ تاثر دیا گیا کہ اسلام امن کے لیے خطرہ ہے۔
ایک اور مسئلہ ’’اللہ اکبر‘‘ کی اصطلاح کے نامناسب استعمال کا بھی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں یہ مقدس الفاظ ہیں جبکہ مغربی میڈیا اس اصطلاح کو ایک ایسے نعرے کے طورپر پیش کرتا ہے جسے دہشت گردی کی کارروائی کرنے والے لوگ ’’وکٹم‘‘ سے نفرت کے اظہار کےطورپر لگاتے ہیں۔ مقدس الفاظ کو نفرت کے اظہار کے طورپر پیش کرنا ایک شدید غلط فہمی اور گمراہی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً الجزیرہ نے ایک چینی سیاسی ڈکلیریشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ۔ ’’انہوں نے جہادمیں شہادت اور جنت کے حصول کے وقت نفرت انگیز الفاظ اونچی زبان میں دہرائے‘‘۔ (China Says, 2019, p.3)
جیکبسن(2012) نے ایک تحقیق میں استدلال کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے صرف باہر سے حملے نہیں کیے جا تے بلکہ مسلمانوں کے اندر سے بھی حملے کرائے جا رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی غرض سے مسلمانوں میں سے ہی کچھ ایسےلوگ تیار کیے گئے ہیں جو مغرب کے ایما پر اپنے آپ کو اعتدال پسند، جدید یا لبرل مسلمان کہتے ہیں۔ ان اصطلاحات کے استعمال کا مقصد بالواسطہ طور پر عوام کو یہ باور کرانا ہوتاہے کہ اسلام کا ایک ورژن جدید اور اعتدال پسند ہے اور اس کے سوا پورا اسلام نتہاپسند اور دہشت گرد ہے۔ ان اصلاحات سے دنیا بھر کی غیر مسلم عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اعتدال پسند مسلمان اچھے، مغرب نواز اور جنگ میں مغرب کا ساتھ دینے والے ہیں جبکہ دیگر سب مسلمان ہمارے دشمن ہیں اوران سے جنگ کرکے انہیں ختم کرنا جائز ہے۔اسلام کو پسماندہ اور جدید و قدیم تصورات میں منقسم مذہب ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا مسلم خواتین کو دو باہم متقابل اور متحارب گروہوں میں پیش کرتا ہے۔ مسلم خواتین کے ایک گروہ کوانتہائی پسماندہ، مردوں کے ظلم و ستم کا شکار اور دوسرے گروہ کو انتہائی مضبوط، مردوں کی برابری اور مقابلہ کرنے والی فیمنسٹ ویمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح مغربی میڈیا اسلامی عقائد اور تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے مسلم عورت کی مظلومیت کا رونا روتا ہے اور انہیں بغاوت پر اکساتے ہوئے اپنی حمایت اورمدد کا یقین دلاتا ہے۔