اب ویکسین کی سیاست ہوگی _ مظفر اعجاز

631

دسمبر 2019ء میں عالمی وبا اور اس کا خوف اچھی طرح بلکہ بری طرح پھیلانے کے بعد ویکسین سیاست توقع کے عین مطابق شروع ہوگئی ہے۔ پہلے وبا کا خوف وبا سے زیادہ بٹھایا جارہا تھا۔ وبا کے نام پر سیاست ہورہی تھی۔ اپوزیشن نے جلسہ کردیا تو وبا اس کی وجہ سے پھیلی، حکومت کے وزرا نے کوئی جلسہ کرلیا تو وبا ان کی وجہ سے پھیلی۔ کوئی جلوس مذہب کے نام پر نکلا تو مذہب کی وجہ سے اور اس آڑ میں دین بیزار لوگوں نے نمازیں خراب کرادیں۔ کوئی فاصلہ رکھتا ہے کوئی نہیں۔ جو نہیں رکھتا لوگ اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں جو رکھتا ہے اس کو بھی اگر ہم کسی بھی بیماری سے مرنے والوں کی گنتی شروع کردیں۔

لوگ اس سے بھی خوفزدہ ہوجائیں گے لیکن فی الحال ساری دنیا ایک ہی گنتی گن رہی ہے اور وہ اس عالمی وبا کی ہے۔ جس نے اختلاف کیا راندۂ درگاہ کردیا گیا۔ وبا کی سیاست نے امریکی صدر کی چھٹی کردی۔ ملکوں کے درمیان وبا کے حوالے سے سیاست جاری ہے۔ جرثومہ امریکا میں بنایا چین کی لیبارٹری میں۔ یہ قدرتی ہے یا بنایا گیا ہے۔ ہرطرف سے مضبوط دلائل ہیں نتیجہ صرف یہ ہے کہ قوم کنفیوژ ہے۔ الجھن کا شکار ہے۔ لیکن جب تک حقائق سامنے آئے دنیا کو ویکسین کے چکر میں لگادیا گیا تھا۔ اس دوران کئی درجن لوگوں کی میتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ پلاسٹک بیگ میں تدفین کی گئی۔ جنازہ نہیں پڑھنے دیا گیا۔ پتا نہیں غسل بھی دیا گیا کہ نہیں۔ چلتے پھرتے آدمی کو اسپتال لے جانا اور میت بھی نہ ملنا یہ سارے واقعات صرف سوشل میڈیا کے تو نہیں تھے۔ پریس کانفرنسیں کرکر کے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے سڑکوں پر لوگوں کے مرنے اور علاج کرنے کی باتیں یہ سب زیادہ پرانی باتیں نہیں ہیں لیکن ایسا ہوا ہے۔ اس وبا کے حوالے سے قوم مستقل ابہام میں ہے۔ ماسک کون پہنے کون نہیں۔ ہر وقت پہنے یا ہجوم میں پہنے۔ کون سا ہجوم بیماری کا سبب ہے اور کون سا بیماری سے پاک۔ جیسے تراویح اور عیدین کی نمازوں کا ہجوم یا ماتمی ہجوم۔

وبا کے جرثومے کے بارے میں پہلے دن سے ملنے والی معلومات متضاد ہیں۔ پہلے اس کے فضا میں زندہ رہنے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ ہوا میں آتے ہی مر جاتا ہے۔ کاغذ، کپڑوں وغیرہ پر بھی رہتا ہے۔ لیکن جب دنیا کے بڑے بڑے اخبارات نے کاغذ کا نوٹ حرکت میں لاکر احتجاج کیا تو کاغذ اور کپڑے کو محفوظ قرار دے دیا گیا۔ شاید مستقبل میں نوٹ ختم کرنے کا منصوبہ ہو جس کے لیے کاغذ والی خبر پہلے چل گئی۔ فی الحال کاغذ اور کپڑے محفوظ ہیں لیکن مساجد کی جانماز ہٹوائی جاتی ہے۔ سخت سردی میں بھی نمازی فرش پر نماز پڑھتے ہیں۔ ایک فائدہ اس خوف کا بھی ہوا ہے۔ پہلے بدلتے موسموں میں فجر کی نماز میں خاص طور پر درجنوں افراد مسجد سے کھانستے ہوئے اُٹھتے تھے لیکن خوف کے ماحول میں جس کو کھانسی آرہی ہو وہ بھی کھانسی دبائے بیٹھا ہے کہ خوامخواہ لوگ مریض سمجھ کر اِدھر اُدھر بھاگ جائیں گے۔ لہٰذا حیرت انگیز طور پر مساجد میں کھانسی کم ہوگئی ہے بلکہ بہت ہی کم۔

اب ذرا ویکسین پالیٹکس کی طرف آجائیں۔ بیک وقت کئی ممالک میں ویکسین بنائے جانے کا اعلان ہوگیا ہے اور ساتھ ساتھ ہماری ویکسین اچھی کی رپورٹس بھی آرہی ہیں۔ لیکن آج کل سیاست یہ نہیں کہ ہماری چیز اچھی پر زور دیا جائے بلکہ دوسرے کی چیز کو خراب قرار دینا آج کل سیاست ہے۔ چناں چہ ایسی ویڈیوز آرہی ہیں کہ فلاں جگہ پر ویکسین لگتے ہی نرس گر پڑی۔ کسی کی ویکسین کے بارے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ اس میں جرثومے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کہیں سے ماہرین بتارہے ہیں کہ فلاں ویکسین تمام خاموش جراثیم کے خلاف مدافعت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ نرس کو ویکسین لگی اور وہ پریس کانفرنس کے دوران بے ہوش ہوگئی۔ ویکسین کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بھی بڑی محنت کی جارہی ہے۔ پہلے یہ خبر آئیں کہ بڑے ممالک نے دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ویکسین خرید لی ہے۔ ایک خبر آئی کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ویکسین دینے سے انکار کردیا۔ پھر اقوام متحدہ نے ازراہ ترحم اسرائیل کو ہدایت کی کہ فلسطینیوں کو بھی ویکسین دی جائے۔ کس قدر منصفانہ جذبات ہیں اقوام متحدہ کے… اور حالت یہ ہے کہ ابھی ہر جگہ ویکسین تجرباتی دور سے گزر رہی ہے۔ یہ سوالات اپنی جگہ ہیں کہ کووڈ 19 کے پہلے جرثومے اور پہلی لہر کے مریضوں پر ریسرچ کرکے جو ویکسین تیار کی جارہی ہے کیا اس کو تیسری لہر کے مقابلے کے لیے مدافعتی ویکسین کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔ لیکن خیر ہے۔ اس قسم کے سوالات تو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے آتے رہتے ہیں ہم کون سا ایمان لے آتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ویکسین تیاری کی خبریں آرہی تھیں۔ ڈریپ کو درخواستیں اور منظوری کی خبر بھی تھی لیکن یہ کہا کہ اچانک چینی کمپنی نے درخواست دے دی۔

پاکستان ویکسین کی تیاری کہاں گئی۔ لیکن اس میں بھی کسی کو پکڑا جائے۔ ہمارے حکمران پولیو ویکسین پر تحقیق کی اجازت نہیں رکھتے تو کووڈ کی ویکسین کیسے بناسکتے ہیں۔ یہ کاروبار ہے جناب… اس کاروبار کے لیے دنیا کے بڑے ممالک میدان میں ہیں۔ اربوں ڈالر کا معاملہ ہے پاکستان میں تو اگر کوئی دعویٰ کر بھی دے اور وہ سو فی صد درست بھی ہو تو چند روز میں اس میں سو کیڑے نکال لیے جائیں گے۔ ویسے یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ پاکستان میں یہ دعویٰ کرے گا کون… ابھی ویکسین کی منظوری کے مراحل ہیں پھر ہوگی امریکی چین یورپی ویکسین کی جنگ۔ حلال اور حرام کی رپورٹیں بھی آچکی ہیں۔ بڑی حکمت کے ساتھ بحث کی گئی کہ اگر جان بچانے کے لیے فلاں ویکسین کے حرام اجزا کو استعمال کرلیا جائے تو کوئی قباحت نہیں۔ پھر تو بحث چھڑتی ہے۔ دیکھیں اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا۔