عظمت کا مینارہ…پروفیسر سید مختار الحسن گوہر

434

پروفیسر سید مختار الحسن گوہر بھی ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند جا سوئے۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے صاحب فراش تھے، قوتِ گویائی سلب ہوچکی تھی۔ 29 نومبر کی دوپہر سانسوں کا یہ بندھن ٹوٹا اور قلب کی حرکت بھی خاموش ہوتی چلی گئی۔ ان کے چاہنے والوں پر جب اس خبر کا انکشاف ہوا کہ وہ جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تو لوگ جوق در جوق ان کے گھر پر جمع ہوئے اور بلاشبہ انہیں آخری سلام پیش کیا۔
ان کا یہ معمول تھا کہ وہ جہاں سے بھی گزرتے ہر ایک کو سلام کرتے بچہ جوان بوڑھا جو بھی مل جائے سلام میں پہل کرتے بلکہ اتنے چھوٹے بچوں کو بھی سلام کرتے جو بولنا تک نہ جانتے ہوں۔ ان کے اس عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض چھوٹے بچے سلام کہنا بعد میں سیکھے سلام کے لیے ہاتھ پہلے آگے بڑھا دیتے۔ کسی کے گھر میں داخل ہوتے تو با آواز بلند سلام کرتے اہل خانہ سے کہتے کہ ان کا سلام گھر کی خواتین کو پہنچادیا جائے ایک اسٹیکر بنوا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ’’مسکراتے ہوئے السلام علیکم کہیے اور دلوں کو جیت لیجیے‘‘۔ انہی کے مشورے پر میں نے اپنا کتابچے ’’ہم نے آج تراویح میں کیا پڑھا‘‘ میں اس جملے کو نمایاں مقام پر شائع کیا۔ کسی کا مکان تعمیر ہو رہا ہو تو ان کا مشورہ ہوتا کہ دیوار پر ایک تختی جس پر مذکورہ عبارت آویزاں کردی جائے۔ یہی وجہ تھی کہ بازار میں سنگِ مرمر کی بنی ایسی تختیاں فروخت ہونے لگیں جن پر السلام علیکم کی عبارت درج ہوتی بلاشبہ وہ سب کو سلامتی کا پیغام دیتے ہوئے گزرتے اور جواب میں بہت ساری سلامتیاں سمیٹ لیتے، ان کی موت کے بعد سوچتا ہوں کہ اب ایسے مہرباں کہاں ملیں گے جو ملاقات کی ابتدا میں سلامتی اور رحمت کی دعائیں دیتے تھے، پھر سوچتا ہوں کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے سبق کو یاد کرلیں اور سلام کو رواج دین جو یقینا ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔
دل سمجھتا ہے قیامت خیز ہے یہ سانحہ
عقل کہتی ہے اسے عزم مشیت کی ادا
زخم ہائے دل کسی تسکین سے بھرتے نہیں
عقل کہتی ہے خدا والے کبھی مرتے نہیں
ان سے تعلق چار عشروں سے زائد عرصے پر محیط رہا۔ جب میں نے ’’اسلامی جمعیت طلبہ سے ناتا جوڑا تو ناظم مالیات کی ذمے داریاں تفویض ہوئیں۔ اعانت کے حصول کے لیے مختار گوہر صاحب سے تعارف حاصل ہوا، وہ اس زمانے میں جب لوگ ایک روپیہ دیتے تھے، پانچ روپے ماہانہ دینے پر راضی ہوئے مگر اس شرط کے ساتھ کہ مہینے کی 5 اور 10 تاریخ کے درمیان فجر کی نماز ان کے گھر سے ملحقہ مسجد میں ادا کی جائے۔ یوں اعانت کے ساتھ صبح سویرے مہینہ میں ایک مرتبہ ہی سہی چہل قدمی کا موقع بھی ملتا۔ مسجد سے ان کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ ہمیشہ کوشش کرتے کہ نماز باجماعت ادا کریں۔ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور اذان کی آواز آجائے تو بے چین ہوجاتے اور جب تک نماز ادا نہ کرلیتے پریشانی ان پر عیاں رہتی۔ زندگی کے آخری دور میں جب کمزوری ان پر غالب تھی مگر جب تک چلنے پھرنے کی سکت رہی مسجد میں نماز کی ادائیگی کو مقدم جانتے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھتے۔ کہا کرتے کہ قرب الٰہی کا یہ بہترین موقع ہے کہ تنہائی میں بیٹھ کر راز و نیاز حاصل ہوتا ہے۔ عمر بڑھتی جارہی تھی ضعف اور کمزوری بھی نمایاں ہوگئی تھی مگر رمضان المبارک کے آتے ہی اعتکاف کا ارادہ ظاہر کرتے اور پھر جب تک ہمت رہی اس عبادت میں منہمک رہے۔
وہ ملائک سی معصوم و مقدس زندگی
اک ادھورا سانس بھی جس کا مکمل بندگی
گوشۂ مسجد میں محوِ فکر ہونا آپ کا
صحن مسجد میں چٹائی پر وہ سونا آپ کا
لب مسیحا کی طرح معصومیت سے کھولنا
روح تک آواز پہنچے اس ادا سے بولنا
گوہر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ معاشی تنگدستی میں گزارا۔ کرائے کے مکان میں جو جامع مسجد ربانی، کورنگی سے ملحق تھا مقیم رہے۔ یہ وہ دور تھا جب نانِ شبینہ کے حصول میں اکثر انہیں ناکامی کا سامنا رہا مگر غربت اور ناآسودگی کا اظہار کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا۔ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے۔ اس دور میں اکثر ان سے ملاقاتیں رہیں۔ بچے چھوٹے تھے۔ آمدنی کم مگر دل کے اتنے بڑے کہ کبھی کسی پر گھر کے اندر کی کیفیت ظاہر نہ ہونے دیتے۔ میری اکثر رات کے وقت ان سے ملاقاتیں رہیں۔ گھر کا ایک حصہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ وہاں بیٹھتے بٹھاتے اور تواضع بھی کرتے، کبھی بھنے ہوئے چنے پیش کرتے اور اس کی اتنی خوبیاں بیان کرتے کہ بادام اور پستے ان کے سامنے ہیچ معلوم ہوتے۔ کبھی بغیر دودھ کی قہوہ چائے پیش کرتے اور اس کی اتنی افادیت بیان کرتے کہ دودھ والی چائے اس کے سامنے بے مایہ معلوم ہوتی۔ ہاں اس بات کا علم بعد میں ہوا کہ گھر میں دودھ نہ ہونے کی وجہ سے قہوہ اور کوئی چیز میسر نہ ہونے کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں سے مہمانوں کی تواضع کو اپنا فریضہ جانتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ گوہر ٹینس کے نام سے ایک کتابچہ اور اسٹیشنری کا سامان اپنی ویسپا پر رکھ کر دکانوں اور اسکولوں میں فروخت کرتے۔ اسکولوں میں جاتے اور اپنے تیار کردہ گوہر ٹینس کلاسوں میں جا کر سمجھاتے اور پھر چار آنے کی قیمت میں فروخت کے لیے پیش کرتے۔ حالات بدلے انہوں نے اشتہارات بک کرنے شروع کیے، یوں کچھ معاشی آسودگی حاصل ہوئی۔
80ء کی دہائی میں کورنگی میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں امیدوار بنے۔ قیوم آباد سے کورنگی نمبر 1½تک کوئی آٹھ کلو میٹر طویل حلقہ انتخاب ان کے حصے میں آیا۔ جب انتخابی نتائج آئے تو وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر دوسرے نمبر پر رہے۔ جب کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر پہلے نمبر پر رہنے والا امیدوار مختلف رہا۔ یوں جب تمام نتائج مرتب ہوئے تو وہ بھاری اکثریت سے کونسلر منتخب ہوئے۔ علاقے میں تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہوا۔ سڑکوں کی تعمیر ہو یا سیوریج کے نظام کی بحالی، اسکولوں کی تعمیر ہو، یا صفائی کے انتظامات، بنیادی طبی سہولتوں کی فراہمی ہو یا پارکوں اور کھیلوں کے میدان کا قیام ہر حوالے سے ان کی انفرادیت نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ مزاج میں سادگی، رواداری اور انکساری موجود تھی اس لیے کونسلر بن کر بھی درویشانہ انداز اختیار کیے رکھا۔ وہ عوام کے درمیان رہے اس دور میں بھی وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ ٹھیکے داروں نے پیش کش کی کہ ذاتی مکان کی طرف توجہ کریں، بولے امانت میں خیانت کیسے کرسکتا ہوں، بلکہ ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ کونسلر بننے کے بعد آمدنی میں کمی اور اخراجات میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ بولے بلدیہ کے اجلاس میں شرکت کرنی ہو، شام میں دفتر میں بیٹھنا ہو تو اس کے لیے وقت نکالنا پڑ رہا ہے، پھر ملاقاتیوں کی آمد کی وجہ سے تواضع کے لیے اخراجات بڑھے ہیں مگر پھر یہ کہہ کر خاموش ہو رہے کہ خدمت انسانی کی خاطر ایثار و قربانی کا مظاہرہ تو کرنا ہی ہوگا۔ یوں یہ وقت بھی ان کی نیک نامی، ایمانداری اور دیانتداری کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کے دلوں پر ان مٹ نقوش قائم کر گیا۔ آج کل وہ کورنگی سے کچھ دور سوسائٹی میں رہتے تھے۔ مگر جب بھی کورنگی آتے لوگ بڑے عزت و احترام سے پیش آتے اور ان کے دورِ کونسلری کو بھی یاد کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں کورنگی کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
موت کیا ہے؟ زینۂ قرب خدائے لم یزل
جو فنائے حق ہو عین زندگی ہے وہ اجل
زندہ و تابندہ و پائندہ تر ہو نسبتیں
تاقیامت آپ پر برسیں خدا کی رحمتیں
2002ء کے انتخابات میں کورنگی سے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔ وہ دور تھا جب شہر کراچی لسانی عصبیت کے شکنجہ میں جکڑا ہوا تھا۔ مختار گوہر صاحب نے انتہائی سخت اور مشکل حالات میں انتخابی مہم چلائی۔ جہاں تک ممکن ہوا وہ گھروں پر گئے مساجد میں نمازیوں سے ملاقاتیں کیں اور پیغام محبت دیا مگر ٹھپے بازی کے نتیجے میں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ البتہ جیتنے والے کے مقابلے میں وہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے کافی قریب تک پہنچے۔
آپ کی فرقت سے کتنے جان و دل وارفتہ ہیں
کتنی بے اندازہ یادیں آپ سے وابستہ ہیں
ذہن میں یادوں کا ہے آج ایک محشر سا بپا
رقص فرما ہے تصور میں میرے اک اک ادا
آج سے دو دہائی قبل جب ان کے مالی حالات خاصے بہتر ہوچکے تھے بیٹوں نے کاروبار سنبھال لیا۔ تو اس موقع پر وہ اپنی بڑی بیٹی حمیرا کے فرض کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شادی کی یہ تقریب سادہ مگر پروقار تھی۔ وسیع حلقہ احباب تھا۔ اس لیے شرکا محفل کی تعداد بھی کثیر تھی۔ عقدِ مسنونہ کی اس تقریب میں ایک پرانی روایت کو جلابخشی گئی۔ اور اس پر مسرت موقع پر رخصتی کے اشعار پڑھے گئے۔ اس موقع پر فرطِ محبت سے گوہر صاحب کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری تھی کہ جگر کے گوشے کو رخصت کر رہے تھے۔
(جاری ہے)
چند اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں۔
میری بیٹی کا حمیرا نام ہے
سب کی خدمت کرنا اس کا کام ہے
ہو رہی ہے آج اس کی رخصتی
آنے والی ہے جدائی کی گھڑی
والدہ کو دیکھیے سنجیدہ ہیں
اور والد بھی بہت رنجیدہ ہیں
آنکھوں کا کشکول آخر بھر گیا
ہاتھ سے مختار کے گوہر گیا
ماں نے بیٹی سے کہا المختصر
یاد رکھنا یہ نصیحت عمر بھر
ہے یہی حکم خدائے ذوالجلال
اپنے شوہر کا سدا رکھنا خیال
چند سال قبل ان کی اہلیہ سنجیدہ گوہر داغِ مفارقت دے گئیں تو گوہر صاحب بڑے رنجیدہ اور ملول رہنے لگے۔ ایک دو برس نہیں چار دہائیوں کا ساتھ تھا، دُکھ سُکھ کا زمانہ صبر و استقامت کے ساتھ گزارا تھا۔ ان کی اہلیہ انتہائی صابر و شاکر، منکسر المزاج اور قناعت پسند خاتون تھیں۔ تنگدستی ہو یا خوشحالی کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں۔ میرا کئی بار گھر جانا ہوا بڑی محبت سے پیش آتیں، ان کے مزاج کی یہی خوبی رہ رہ کر یاد آتی ہے۔ اور پھر گوہر صاحب کا رنج و ملال بجا ہے کہ ان کی کامیابیوں میں ان کی اہلیہ کی دعائوں کا بڑا حصہ شامل حال رہا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی موت کے بعد گفتگو انہی سے شروع ہوتی اور ان ہی پر اختتام پزیر ہوتی۔ بلاشبہ اہلیہ کی جدائی کا قلق ان کے قلب و حزیں کا حصہ بن کر رہ گیا تھا۔ جسے فراموش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔
میٹھی میٹھی سندر یادیں
ڈستی ہیں بن بن کر ناگن
بن دیپک ہیں رین سپیرے
دیب جلائوں کس کے کارن
گھٹتی جائے سانس کی ڈوری
بڑھتی جائے تڑپن، دھڑکن
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’مجھے زندگی سے عشق اپنی اہلیہ کی وجہ سے ہوا ہے جو بڑی باہمت اور صابر و شاکر خاتون تھیں۔ کبھی خواہشات اور ضروریات کا اظہار نہیں کرتیں، ہمیشہ میرا خیال رکھتی تھیں، میں کہتا ہوں اپنے کپڑے بنوالیں تو جواب ملتا تھا کہ میں تو گھر میں رہتی ہوں آپ کو بنوانے چاہیے کیوں کہ آپ باہر رہتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا رہتا ہے۔ ’’شادی بیاہ کی تقریبات اور عید، بقر عید کے تہوار آتے تو بھی سنجیدہ صاحبہ بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ہمیشہ ایثار کا ثبوت دیتیں۔
چند برس قبل اپنی بیوی کے انتقال کے بعد وہ صاحب فراش ہوگئے، فالج کے حملے نے جسم کے ایک حصے کو متاثر کیا جو ان کی حرکات و سکنات میں رخنہ انداز ہوا تو گوہر صاحب بڑے مایوس و اداس دکھائی دیتے تھے جس کی اصل وجہ نماز کی باجماعت ادائیگی نہ ہونا تھا۔ بلاشبہ ہر مسلمان کی یہی آرزو ہونی چاہیے کہ جب تک سانس ہے اس فرض عبادت کی ادائیگی کا اہتمام کرے کیوں کہ یہی جنت کی کنجی ہے اور جس پہلے سوال سے سامنا ہوگا وہ نماز کے حوالے سے ہے۔ وہ اپنے احباب کی دعائوں کے نتیجے میں بہت جلد صحت یاب ہو کر پہلے مسجد اور پھر احباب سے تعلق جوڑنے میں کامیاب رہے۔ اسلامی نظریہ صحافت کے علمبردار کی حیثیت سے پروفیسر سید مختار الحسن گوہر کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کی صحافتی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے تھک کر نہ بیٹھنے والے اس مجاہد کے قلم کا اعجاز مجھ پر نہیں لاتعداد قارئین پر عیاں ہے۔ آپ کی تحریریں اصلاح معاشرہ کی خاطر ہوا کرتی ہیں۔ وہ اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ کرنے کے لیے پرانے موضوعات کو نئے ڈھنگ میں اپنے کالموں کی زینت بناتے رہے وہ محض گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں۔ سید مختار الحسن گوہر انتہائی ملنسار، سلام میں پہل کرنے والے، دینی فہم سے آراستہ، دیانتدار اور امانتدار، خدمتِ انسانی کے جذبے سے سرشار، ہمدرد، راست گو، متقی و پرہیز گار انسان تھے۔ جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے انہوں نے مولانا مودودیؒ کی تحاریر کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اس فکر کو اپنی زندگی میں رچا بسا کر کامیاب رہنے کا اصول سیکھ لیا تھا۔ وہ حلال و حرام میں تمیز کرنا جانتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ سخت سے سخت حالات میں ربّ کی رضا میں راضی رہے۔ دُنیاوی کامیابی ان کے بہت قریب آئی مگر اخروی کامیابی کے متمنی دھوکے اور فریب سے دور بہت دور، اپنی منزل پر نظر جمائے یقین محکم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے بڑے ہوئے تو دنیا کا آرام و سکون بھی انہیں میسر ہوا اور وہ شاہراہ زندگی پر کامیاب سفر گزارتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ رب رحمان و کریم نے اپنے ایسے ہی بندوں کے لیے فرمایا ہے۔
’’اے اطمینان پانے والی روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے ممتاز بندوں میں داخل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا‘‘۔
ان شاء اللہ آمین
کوئی فطرت کے اصولوں کو بدل سکتا نہیں
جو مقدر ہوچکا وہ وقت ٹل سکتا نہیں
ہے ازل سے ایک ہی قانون جس تس کے لیے
لوٹنا ہے اس کی جانب ہم ہیں سب جس کے لیے