ایس بی سی اے کے 20با اثر افسران کے خلاف نیب کی تحقیقات

301

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) قومی احتساب بیورو( نیب ) غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دینے اور صوبائی خزانے کوکئی ملین روپے کا مالی نقصان پہنچانے کے الزام میں سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے) کے کے بااثر و سینئر ڈائریکٹر مشتاق سومرو اور 20 دیگر افسران کے خلاف تحقیقات شروع کرکے انہیں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 20 جنوری کو طلب کرلیا ہے۔نیب نے جن افسران کے خلاف انکوائری شروع کی ہے ان میں 10 ڈائریکٹرز اور10 ڈپٹی ڈائریکٹرز شامل ہیں جبکہ ایک سابق ڈائریکٹر جنرل کے خلاف بھی جلد ہی باقاعدہ تحقیقات شروع کیے جانیکا امکان ہے۔سابق ڈائریکٹر جنرل پر مذکورہ افسران کی مبینہ طور پر پشت پناہی کا الزام ہے۔ نیب نے مذکورہ 20 ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کی ترقیوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق جن افسران کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے ان میں محمد اقبال، عامر کمال جعفری ، سید محمد ضیا ، مجاہد ، عبدالرحمان بھٹی ، ایم رقیب ، مشتاق ابراہیم سومرو، علی غفران، بنیش شبیر، عرفان نقوی ، جلیس صدیقی، عامر خان ، فہیم مرتضی، زرغام حیدر، عبدالساجد ، اشفاق کھوکھر، راشد حسین، جمیلہ جبین ، عمران شیخ اور علی اسد شامل ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ 20 افسران مبینہ طور پر ایک مافیا کی شکل میں غیر قانونی تعمیرات کی پشت پناہی کیا کرتے تھے جن کی پست پناہی سابق ڈائریکٹر جنرل کیا کرتے تھے۔ مذکورہ سابقہ ڈی جی بیک وقت لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ایس بی سی اے کے سربراہ کے عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ سسٹم مافیا کی سہولت کاری پر سندھ حکومت کے ایک سیکریٹری اور ایک ایڈیشنل سیکریٹری کیخلاف بھی تحقیقات اور کارروائی کا امکان۔علاوہ ازیںصوبائی محکمہ اینٹی کرپشن نے بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 48افسران کے خلاف غیرقانونی تعمیرات میں ملوث ہونے کے الزامات پر تحقیقات کا آغاز کردیاہے ،تفصیلات کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو محکمہ اینٹی کریشن نے تحقیقات سے متعلق مراسلہ بھیج دیا کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ کوسموپولیٹن کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات ہوئیں۔ایس بی سی اے کے 48 افسران مختلف تاریخوں میں انکوائری کے لیے طلب کرلیے گئے ہیں۔ 48افسران میں ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شامل ہیں۔ افسران نے ذاتی فائدے کے لیے رولز کے برخلاف تعمیرات کرائیں۔طلب کیے گئے افسران میں 2 ڈپٹی ڈائریکٹر، 18 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور 21 سینئربلڈنگ انسپکٹرز شامل ہیں۔ خیال رہے کہ ممکنہ طور پر محکمہ اینٹی کرپشن جلد کارروائی مکمل کرکے رپورٹ شایع کرے گا۔