جہیز، بے جا رسومات اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے شادیاں مشکل ہوگئیں

616

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) حکومت کی کمزوری کے باعث ہم ابھی تک جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہیں‘ ان رسومات سے معاشرے میں طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے‘ سادگی سے نکاح کا تصور معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے‘شادی بیاہ میں غیر اسلامی رسم و رواج کو ختم کرنے کے لیے علما و دانشوروں سمیت ہر باشعور شہری کو آگے آناچاہیے‘ پڑھے لکھے لوگوں نے بھی کئی بے سروپا رسمیں محض دکھاوے کی خاطر شادی اور ولیمے میں شامل کر لی ہیں جب کے ایسی رسومات کو ترک کرکے شادی کو آسان اور ان کے بجٹ میں کمی کی جا سکتی ہے‘ شادی مہنگی نہیں ہوتی جا رہی ہے بلکہ مہنگائی نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کی سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی راشدہ رفعت، انٹر نیشنل ریسرچ کونسل فار ریلی جس افئیرز (آئی آر سی آر اے) کے صدر مولانا محمد اسرار مدنی، جامعہ کراچی شعبہ جرمیات کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید اور روٹری کلب کراچی برائے اجتماعی شادی کے چیئرمین سید مظہر امام نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں شادیاں مہنگی کیوں ہوتی جارہی ہیں؟‘‘ راشدہ رفعت نے کہا کہ شادی آج ایک بے انتہا پیسہ طلب تقریب بن چکی ہے‘ اس کی وجہ جہاں دور جدید کی بڑھتی مہنگائی ہے تو کہیں نہ کہیں قصور وار ہم لوگ خود بھی ہیں‘ بے جا رسومات کرکے پیسے کا ضیاع کرتے ہیں‘ آج مجموعی طور پر ہماری بیشتر تقاریب اسلامی احکامات کے مطابق نہیں ہوتی ہیں‘ نبی اکرمؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓکے نکاح اور دیگر صحابہ کی شادیوں کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اسلام میں شادی کو نہاہت سادہ اور آسان عمل بتایا گیا ہے۔ حدیث مبارک ہے کہ حضرت محمدؐ نے فرمایا ” نکاح کا اعلان کرو، اسے مساجد میں منعقد کرو” (ترمذی۔ جلد 2، حدیث 1091)۔ چنانچہ اسلام ہمیں شادیوں میں کم سے کم خرچہ کرنے کے احکام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں جہیز کے خلاف ایک بِل پیش کیا تھا جس کو بھاری اکثریت سے منظورگیا،بعد میں اس بل کو مرکز سمیت دیگر صوبوں کی اسمبلیوں میں پیش کیا گیا‘ مذکورہ قانون کی رو سے شادی بیاہ کی کسی تقریب پر75 ہزار روپے سے زیادہ اخراجات کرنا جرم تصور کیا جائے گا‘ دْلہن کے والدین اور رشتہ دار اسے10ہزار روپے سے زاید مالیت کا تحفہ نہیں دے سکتے‘ مہمانوں کی تواضع صرف مشروبات سے کی جائے گی‘ کھانے میں ایک ڈش سے زیادہ پر پابندی ہو گی‘ رات کو ہونے والی شادی کی تقریب کو 10 بجے سے قبل ختم کرنا لازمی ہو گا‘ قانون کی خلاف ورزی کرنے اور دلہن کے والدین کو جہیز دینے پر مجبور کرنے والوں کو3 لاکھ روپے جرمانہ اور 2 ماہ قید یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ سزائیں دلہا اوردلہن کے والدین یا قریبی رشتہ داروں کو دی جائیں گی‘ اس قانون کی کسی بھی شِق کی خلاف ورزی کی صورت میں مجسٹریٹ کو تحریری درخواست دینے کے بعد اس پر کارروائی کی جاسکے گی لیکن اس قانون پر حکومت کی جانب سے ایک دن بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کمزوری کے باعث ابھی تک جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے میں ہم ناکام ہیں‘ ان رسومات سے معاشرے میں طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے‘ امیروں کو تو ایسی کئی مزید رسومات سے فرق نہیں پڑنے والا، مگر وہ غربا اور سفید پوش خاندان جو اپنی بچیوں کے رشتوں کے اشتہارات اخباروں میں دینے پر مجبور ہیں‘ وہ ان جاہلانہ رسوم کے تلے دبتے جا رہے ہیں‘دولت کی نمائش نے معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کیا ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ معاشرے کی اس غلط روایت کی نظر ہو رہے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان رسومات کو پورا کرنے پر مجبور ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج شادیاں قرض لے کر کی جا رہی ہیں‘ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ شادی کی غیر ضروری اور مہنگی رسومات کو معاشرے سے نکال پھینکیں جس کے لیے حکومت، عوام اور معاشرے کے تمام نمائندوں کو ایک ساتھ مل کر لوگوں کو شادی بیاہ سمیت دیگر معاملات اسلام کے مطابق اور اعتدال پسندی کے ساتھ پورا کرنے کی تعلیمات دینی چاہیے۔ مولانا محمد اسرار مدنی نے کہا کہ معاشرے میں شادیاں مہنگی ہونے کی کئی وجوہات ہیں اور مختلف خطوں کے حوالے سے اس کے مختلف اسباب ہیں‘ اگر ہم خیبر پختونخوا کی بات کر یں تو یہاں پر جو ولیمہ ہوتا ہے اس کو بہت مہنگا تصور کیا جاتا ہے اور اس میں خود نمائی اور بہت ساری خرافات شامل ہیں‘ ہم بہت زیادہ آگے بڑھ کر اسراف کی طرف چلے گئے ہیں‘ بڑے شہروں میں جہیز ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور جہیز کے ساتھ کچھ ہندوانہ رسمیں بھی ہیں جو ہم نے ان کو دیکھ کر اختیار کرلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بلوچستان اور فاٹا میں تو لڑکی والے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں جو مہر کے نام پرکیا جاتا ہے اور وہ بڑی خطیر رقم جس میں20 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک طلب کیے جاتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے ‘ اس کے علاوہ جو نکاح کا سادہ اور آسان تصور تھا وہ بھی ہمارے معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے‘ اس کی جگہ اسراف اور بیجا رسومات نے لے لی ہیں جس میں لاکھوں کے کپڑے، سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات اور بہت ساری چیزیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان غیر اسلامی رسم و رواج کو ختم کرنے کے لیے علما و دانشوروں کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر باشعور شہری کو آگے آناچاہیے‘ غریب والدین کے لیے اپنی لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ بن چکی ہے‘ تعلیمی اداروں میں سماجی کلچر کو بہتر بنانے کی ترغیب دی جائے‘ ہم غیروں کی پیروی کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور سنت تارک کر غضب الٰہی کے بھی مستحق ہو رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نا ئمہ سعید نے کہا کہ واقعی آج کل شادی کی تقریبات پر اخراجاب بہت بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہر مشکل چیز کی قیمت بھی زیادہ ہو جاتی ہے‘ مجموعی طور پر مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ بھی ہوا ہے‘ اس کی ایک اور وجہ ہے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں ہیں اور ان میں دکھائے جانے والے نئے فیشن کی تقلید لوگ اپنی تقریبات میں کرتے ہیں‘ اس وجہ سے بھی شادیوں کے بجٹ میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے لیکن عملی طور پر اس کا کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوا‘ پڑھے لکھے لوگ بھی کئی بے سروپا اور محض دکھاوے کی خاطر کئی رسمیں ادا کر تے ہیں اور انہوں نے اس کے معیار بھی مقرر کر رکھے ہیں جب کے ایسی رسومات کو ترک کرکے شادیوں کو سادہ و آسان اور ان کے بجٹ میں واضح کمی کی جاسکتی ہے۔ سید مظہر امام نے کہا کہ شادیاں مہنگی نہیں ہوتی جا رہی ہیں بلکہ مہنگائی شادی بیاہ کو مشکل بنا رہی ہے‘ آج کے دور میں ایک مزدور کو اپنا گھر چلانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے‘ گورنمنٹ نے ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ جو مقرر کی ہے وہ اس کے خاندان کے لیے ناکافی ہے‘ وہ اپنی بیٹی کی شادی کیسے کرے گا‘ جس طرح ہماری گورنمنٹ نے مزدور کی تنخواہ مقرر کی ہے اسی طرح شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں بھی پابندی لگانی چا ہیے‘ خواہ کسی غریب کی بیٹی ہو یا کسی امیرکی ‘جہیز سب کا ایک جیسا ہی ہونا چاہیے‘چیک اینڈ بیلنس بہت ضروری ہے‘ فضول رسومات میں الجھ کر اپنا خرچے کو بڑھانے سے بہتر ہے اس سے بچا جائے‘ معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکا ہے‘ لڑکے والے منہ مانگے جہیز کے منتظر ہیں جس کی وجہ سے والدین بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے جہیز کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے علاج کے لیے عملی قدم اٹھایا‘ روٹری کلب کراچی کے ذریعے غریب اور نادار گھرانوں کو ان کے اس فریضے کی ادائیگی میں مکمل عملی و مالی تعاون فراہم کر کے ہزاروں مستحقین کے چہروں پر خوشیاں لوٹا دی گئی ہیں۔ روٹری کلب کراچی نے ان کے لیے اجتماعی شادیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ ایک بچی کی شادی پر تقریباً 150,000 روپے سے 175,000 روپے خرچ آتا ہے‘ مقامی سطح پر ان شادیوں کے لیے مخیر حضرات کا تعاون روٹری کلب پر اعتماد کی علامت ہے۔