اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجیں گے

579

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ’’حکومت قوم کو 950 دنوں کا حساب دے کہ کیا کھویا کیا پایا۔ مافیاز اور وزرا کی چاندی ہوئی لیکن عوام کے پاس جو تھا وہ بھی نہ رہا۔ عام پاکستانی 42 قسم کا ٹیکس دے کر بھی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اگر سب کا احتساب ہوتا تو براڈ شیٹ جیسے اسکینڈل پر قوم کی سبکی نہ ہوتی‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو وہ کہتے ہی کیوں ہو جو کر نہیں سکتے۔ بات دراصل یہی ہے کہ اقتدار میں آنے یا لائے جانے سے قبل آنے والوں یا لانے والوں کی نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی کوئی تیاری ہی نہیں تھی بلکہ عوام کے سامنے ایسے ایسے دعوے کیے تھے جو پاکستان کے زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے کسی صورت پورے نہیں کیے جا سکتے تھے۔ قرض نہ لینا، اشائے صرف کو نہایت سستا کر دینا، تمام ہاؤسز، بشمول وزیر اعظم ہاؤس، کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دینا، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ کو کم کر دینا، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ آدھے سے بھی کم پر لے آنا اور اگر ایسا سب کچھ نہ کر سکنا تو خود کشی کر لینا یا حکومت کو لات مار کر جنگلوں میں نکل جانا وغیرہ جیسی باتوں نے عوام کے دلوں میں ایسا گھر کیا کہ وہ موجودہ حکومت سے قبل تخت اقتدار پر آکر بیٹھنے والوں کے تمام جھوٹے دعوں اور وعدوں کو فراموش کرکے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح اپنی گردن سیدھی کر کے بلند و بانگ دعویٰ کرنے والے کے پیچھے پیچھے چل دیے۔
سراج الحق صاحب درست ہی فرماتے ہیں کہ درجنوں اقسام کے ٹیکسز اور سر چارجز وصول کرنے کے باوجود حکومت ایک جانب تو اپنے اخراجات تک پورے نہیں کر پا رہی تو دوسری جانب جن کا لہو نچوڑ کر ان کی چمڑی تک ادھیڑی جا رہی ہے، ان ٹیکسوں سے وصول ہونے والے پیسے کی ایک پھوٹی کوڑی تک ان پر خرچ نہیں کی جا رہی۔ بات اگر اسی پر ختم ہوجاتی کہ عوام کے خون پسینے کی آمدنیوں سے لہو کی طرح نچوڑ کر جو ٹیکس حاصل کیا جاتا ہے وہ عوام پر خرچ ہی نہیں کیا جاتا تو شاید عوام اس کو برداشت کر ہی لیتے لیکن ناقابل برداشت بات یہ ہے کہ زندگی کی سانسوں کو بحال رکھنے والی اشیائے ضروریہ کئی کئی گنا مہنگی کر دی گئی ہیں لیکن مہنگائی کا تسلسل ہے کہ ٹوٹتا یا کسی مقام پر تھمتا دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ ایک جانب مہنگائی کا ایک بپھرا ہوا سیلِ آب ہے جو اپنی تمام تر طوفان خیزیوں کے ساتھ بڑھتا چڑھتا چلا آ رہا ہے تو دوسری جانب بے روز گاری ہے کہ وہ عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے شرفا خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں تو وہ لوگ جو قومی و دینی حمیت و غیرت سے عاری ہیں وہ چوری چکاری، لوٹ مار اور ڈاکا زنی پر اتر آئے ہیں جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔
اگر حکومت کے 31 ماہ اور 13 دنوں کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس حکومت نے سوائے توڑ پھور اور مسماری کے کوئی ایک بھی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ بازار کے بازار اجاڑ دیے اور بستیاں کی بستیاں زمین بوس کر دیں۔ ان سب پر جس قسم کے الزامات لگا کر بسے بسائے گھروں اور چلتے کاروبار کو تباہ و برباد کیا گیا، وہی سارے قانونی سقم لیے وزیر اعظم کی اپنی کٹیا چند لاکھ روپوں کے عوض قانونی بنالی گئی۔ اگر ایک غیر قانونی کٹیا ریاستی قوانین کی چند شرائط پوری کرکے قانونی بنائی جا سکتی تھی تو غریبوں کے محل، ان کے کاروباری پلازے اور اونچی اونچی جگمگ جگمگ کرتی عمارتیں کیونکر قانونی نہیں بنائی جا سکتی تھیں یا ان کے لیے بہت عالی شان متبادل کاروباری اور رہائشی مراکز کیوں تعمیر نہیں ہو سکتے تھے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ایک کروڑ نوکریاں کیوں نہیں دی گئیں یا 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا ہوا، سوال یہ ہے کہ لگی لگائی نوکریوں کے دروازے کیوں بند نہیں کیے گئے اور ہستی بستی بستیاں کیوں اجاڑ دی گئیں۔سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے
کہ پاکستان کی تقدیر کو بدل کر رکھ دینے والی سرکار نے اگر اب تک کچھ رد و بدل کے مظاہرے کیے بھی ہیں تو وہ وزارتوں کے محکموں میں وزرا کو ایک محکمے سے ہٹا کر دوسرا محکمہ سوپنے جیسے معاملوں میں تو ضرور کیے ہیں لیکن جن تبدیلیوں کے خواب عوام کی آنکھوں میں سجائے جا رہے تھے ان سب کو اس بری طرح کرچی کرچی کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ آنکھیں زخمی ہو کر لہو رونے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
قرضہ نہیں لونگا، لے لیا۔ قرضہ لینے کی نوبت آ گئی تو خود کشی کر لونگا، پورے دانوں کی نمائش کے ساتھ زندہ ہیں۔ ڈالر کی عزت کو خاک میں ملادونگا، روپیہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔ غرض کون سا ایسا دعویٰ جو قوم سے کیا گیا ہو وہ پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہو۔ ایک جانب یہ ساری ڈھٹائیاں ہیں تو دوسری جانب قدم قدم پر اپنے ہی منہ سے اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں کا بر ملا اقرار، لیکن اس کے باوجود بھی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی مصداق اقتدار سے چمٹے رہنا، ایسے اعمال ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کی بیان کردہ کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس کی حقانیت سے انکار کیا جا سکے لیکن بات وہیں پر آکر ختم ہوتی ہے کہ آخر موجودہ حکومت کی کس کس بات کو رویا جائے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہر فرد و بشر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ
اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوجیں گے
تا کہ گھبرائیں تو ٹکرا بھی سکیں مر بھی سکیں