بجلی کی پیداوار‘ ترسیل اور گردشی قرضے

596

پاکستان کے شدید ترین معاشی و مالیاتی مسائل میں بجلی کی پیداوار، ترسیل، تقسیم اور وصولیابی کا سلسلہ سرفہرست ہے اور اس کے اثرات سے کوئی محفوظ نہیں۔ حکومت اکثر اس مسئلے کا ذکر کرتی رہتی ہے اور اس کی ذمے داری پرانی حکومتوں پر ڈال دیتی ہے۔ تاجر اور صنعت کار اپنے اجلاسوں میں اس مسئلے کو زیر بحث لاتے ہیں۔ زراعت کا شعبہ اس مسئلے کی وجہ سے پوری پیداوار نہیں دے پارہا۔ ہم اور آپ میں کون ہے جو اس مسئلے کا کسی نہ کسی طرح شکار نہ ہو۔ اس مسئلے میں ایک طرف لوڈشیڈنگ ہے تو دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے اور اس کے بعد پھر گردشی قرضے ہیں جو سرکاری بجٹ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ گزشتہ ادوار کے ارباب اقتدار، سرکاری اہلکار اور حکومتی پالیسی ساز ہیں جن کی لاپروائی، عدم دلچسپی اور غفلت سے یہ مسئلہ اتنا بھیانک ہوگیا ہے کہ جس سے ملک کی سلامتی اور استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 37 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ مجموعی طلب 25 ہزار میگاواٹ ہے لیکن جو پاکستان کا پرانا اور فرسودہ تقسیم اور ترسیل کا نظام ہے وہ صرف 22 ہزار میگا واٹ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پورے نظام میں تین طرح کے ادارے شامل ہیں۔ ایک وہ جو بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو ایندھن یعنی فرنس آئل اور گیس فراہم کرتے ہیں جن میں او جی ڈی سی (OGDC) اور پی پی ایل (PPL) شامل ہیں اور یہ PSO، آئل ریفائنریز ایس ایس جی سی وغیرہ کے ذریعے تیل اور گیس فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو بجلی کی پیداوار میں شامل ہیں۔ اُن میں واپڈا کے تحت منگلا اور تربیلا ڈیم ہیں اس کے علاوہ انٹرپیڈنٹ پاور پلانٹ (IPPs)، کے الیکٹرک وغیرہ ہیں اس کے بعد بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا مرحلہ آتا ہے جس میں مختلف کی تقسیم کار کمپنیاں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) شامل ہیں اور ان سب کے اوپر ایک اور ادارہ ہے جس کا نام پیپکو (PEPCO) ہے، یہ وہ ادارہ ہے جو ہر قسم کے صارفین سے بھی وصول کرتا ہے اور اس کے بعد مختلف اداروں کو طے شدہ معاہدے کے تحت ادائیگی کرتا ہے۔ اب اگر صارفین سے وصولی بجلی کی مکمل قیمت کے برابر ہو تو کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو اور سارے ادارے اطمینان و سکون سے کام کرتے رہیں۔ لوڈشیڈنگ بھی نہ ہو اور بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ نہ ہو۔
حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ بجلی کے پیداواری ادارے (IPPs) جن شرائط پر پاکستان میں بجلی پیدا کرکے دے رہے ہیں وہ بہت ظالمانہ اور سنگ دلانہ ہیں اور اس کی ذمے داری اُن سیاستدانوں، پالیسی سازوں اور بیورو کریسی پر ہے جو اِن شرائط کو منظور کررہے ہیں۔ اُن میں سے زیادہ تر ریٹائر ہوچکے ہیں یا اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں مگر آج پورا پاکستان یہ عذاب جھیل رہا ہے۔ مثلاً وہ بجلی پیدا کرنے والی بین الاقوامی کمپنیاں جو یہاں بجلی بنا رہی ہیں اُن کو ادائیگی امریکی ڈالر میں ہوگی جس وقت یہ معاہدے ہورہے تھے اس وقت ڈالر پچاس ساٹھ روپے کا تھا، آج 160 روپے کا ہے تو بجلی کے نرخ خود بخود تین گنا ہوگئے۔ دوسرے آئل اور گیس کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں، تیسرے فاٹا اور کئی بڑے سرکاری ادارے بجلی کا پورا بل ادا نہیں کررہے۔ اسی طرح معیشت کے مختلف شعبوں کو ترقی دینے کے لیے اور بعض علاقوں کے غریب عوام کو رعایت دیتے ہوئے سستی بجلی فراہم کی گئی۔ مثلاً بجلی کا ایک یونٹ 5 روپے کا ہے، حکومت نے اُن سے فی یونٹ 3 روپے کے حساب سے بجلی فراہم کی اور 2 روپے سرکاری خزانے سے PEPCO کو دینے کا اعلان کیا۔ لیکن حکومت نے قیمت کے اس فرق کو ادا کرنے کی ذمے داری پوری نہ کی۔ چناں چہ پیپکو آئل اور گیس فراہم کرنے والوں کو پوری ادائیگی نہ کرسکا۔ چناں چہ ان اداروں نے بجلی کے بڑے بڑے بل ادا نہیں کیے۔ اس سے بجلی پیدا کرنے والوں کو پوری پیداواری لاگت نہ مل سکی اور اس طرح گردشی قرضہ پیدا ہوا جس کا حجم 2010ء میں 150 ارب روپے تھا اور دسمبر 2020ء تک 2300 ارب ہوگیا ہے۔ اندازہ ہے جون 2021ء تک 2805 ارب روپے ہوجائے گا۔
اسی وجہ سے حکومت بار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے، پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ مہنگی بجلی عوام اور صنعتوں کو سپلائی کی جارہی ہے۔ اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔ چناں چہ ملکی برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا جس کی ملک کو شدید ضرورت ہے اور اسی وجہ سے پاکستان معاشی ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ حل اس کا یہ ہے کہ تیل اور گیس سے بجلی پیداوار کرنے کے سلسلے کو کم کیا جائے۔ ہوا اور دھوپ سے بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے، پاکستان میں سولر پاور سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ہوا سے بڑی مقدار میں بجلی تیار کی جاسکتی ہے۔ جرمنی، ڈنمارک، امریکا، مراکش اور چین اپنی پاور جنریشن کو ہوا اور دھوپ پر تبدیل کررہے ہیں۔ اسی طرح بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بہتر کیا جائے۔ بجلی کی چوری کو روکا جائے تا کہ پاور سیکٹر کا نظام بہتر ہوسکے۔