کراچی کے مسائل کا حل کیا ہے؟

367

کراچی کے شہری مسائل میں کمی کے بجائے آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ اقتدار میں موجود سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان زبانی جمع خرچ کے بعد ایک بار پھر کراچی کو بھول چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کا رونا تو کراچی میں مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا کراچی کے مفادات کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔ اس وقت شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ایسے میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ’’حقوق کراچی تحریک‘‘ کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے تین کروڑ عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق دینے اور شہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے کراچی میں دو بارہ مردم شماری کرائی جائے، کوٹا سسٹم ختم کیا جائے، کراچی کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں ان کا حق دیا جائے، ان کو سندھ حکومت اور مقامی اداروں میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں دی جائیں، کراچی میں بااختیار شہری حکومت کے لیے موجودہ لوکل باڈی ایکٹ ختم کر کے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے، کے الیکٹرک کا 15سال کا فارنزک آڈٹ کیا جائے اور قومی اداروں اور عوام کے اربوں روپے واپس کروائے جائیں، گرین لائین سسٹم کو فی الفور فعال بناتے ہوئے شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے کم از کم 1ہزار بسیں فوری طور چلائی جائیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے ایک بار پھر کراچی سے متعلق تلخ حقائق بیان کیے ہیں اور یہ کہنا بجا ہے کہ جب شہر کی آبادی ہی کو درست شمار نہ کیا جائے گا تو پھر قومی اور صوبائی سطح پر وسائل کی درست اور جائز تقسیم کیسے ممکن ہو سکے گی؟ اس وقت شہر مسائل کی آماج گاہ ہے یہاں کے شہریوں کو پانی تک نہیں مل رہا ہے جو مل رہا ہے وہ آلودہ ہے اور موت کا سبب بن رہا ہے نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ نے پانی کا منصوبہ k3 مکمل کیا اور پھر K-4 شروع کیا جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام نہیں، ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگ چنگ چی رکشوں اور کوچوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، صرف ایک گرین لائین منصوبہ تک مکمل ہونے کو نہیں آرہا، ماضی میں شہر کے اندر کے ٹی سی کی ہزاروں بسیں چلتی تھیں، 1999 سے سرکلر ریلوے بند ہے۔ شہر میں نوجوانوں کے کھیل کے میدان اور عوام کے لیے پارک نہیں ہیں، نوجوان اس شہر میں بے روزگاری کے ساتھ بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں اور جرائم کی طرف بڑھ رہے ہیں اس وقت شہر میں جرائم کی شرح پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اور یہ اس شہر کے ساتھ ہورہا جس کا اس ملک کی معیشت میں حصہ سب سے زیادہ ہے، حالیہ ٹیکس جائزے میں بھی کراچی سے 41فی صد ٹیکس وصول کیا گیا جبکہ باقی ٹیکس پورے ملک سے وصول کیا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سے صرف چند فی صد حصہ دیا جاتا ہے، وفاقی حکومت کے اعلان کردہ 11سو ارب روپے کے پیکیج میں سے بھی چار ماہ کا عرصہ گزر گیا، صرف 5فی صد ہی عمل درآمد ہو سکا ہے۔ پیکیجز کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ مسلسل دھوکا کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی برسوں سے مسلسل کراچی دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے، ایم کیو ایم اقتدار کے مزے تو لیتی ہے لیکن کراچی کے بنیادی اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتی، پی ٹی آئی نے بھی ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا بلکہ اس نے اور ایم کیو ایم نے مل کر پہلے کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کرکے اور پھر جعلی اور متنازع مردم شماری کی منظوری دے کراچی دشمنی ہی کا ثبوت دیا ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ تمام دعوں اور وعدوں کے باوجود کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں اور حل طلب ہیں ایسے میں جماعت اسلامی کے مطالبات جائز اور کراچی کے لوگوں کے بنیادی مسائل سے متعلق ہیں اور ’’حقوق کراچی مہم اذیت، تکلیف اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے والے کراچی کے ہر شہری کے دل کی آواز ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تحریک کو تیز اور موثرکرنے کے لیے بڑے پیمانے پر عوام الناس سے رابطہ کیا جائے، اس کے ہر مرحلے کے پروگرام کو کامیاب بنایا جائے اور کراچی کے عوام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی اس تحریک کا ساتھ دیں لوگوں کی بڑی تعداد جب اپنے حق کے لیے باہر نکلے گی تو حکمراں بالآخر اس شہر کو اس کا حق دینے پر یقینا مجبور ہوں گے۔