کراچی میں غیر قانونی پارکنگ کا کاروبار

352

چیئرمین قائمہ کمیٹی ورکس اینڈ سروسز رکن سندھ اسمبلی و رہنما جماعت اسلامی سید عبدالرشید نے ٹریفک پولیس کی جانب سے کراچی کے شہریوں کی پارکنگ سے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں نجی لیبر سے اٹھانے کے معاملے پر سندھ اسمبلی میں توجہ دلائو نوٹس میں کہا ہے کہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں غیر مجاز افراد کی جانب سے نجی لیبر کے ذریعے اٹھوائی جارہی ہیں، شہریوں سے رقم وصول کرکے گاڑیاں چھوڑ دی جاتی ہیں یہ سب کس قانون کے تحت ہورہا وضاحت کی جائے؟۔ اس سے قبل امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن حقوق کراچی مہم کے دوران کئی بار یہ سوال اٹھا چکے ہیں کہ چارجڈ پارکنگ کے نام پر جمع ہونے والا پیسہ کہاں جاتا ہے؟۔ کراچی میں چارجڈ پارکنگ کے نام پر شہریوں سے ’’سرکاری‘‘ اور غیر سرکاری اہلکاروں کی بھتا وصولی یہاں کے لوگوں کے لیے سخت اذیت اور تکلیف کا باعث ہے، متعلقہ اداروں کے افسران کی ملی بھگت سے ٹھیکیداروں کے شہریوں سے لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہیں۔ اس وقت شہر کے تمام کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹیں، شاپنگ مال اور تفریحی مقامات کے قریب پارکنگ مافیا سرگرم ہے یہاں تک کہ اب شہر کا کوئی چھوٹا بڑا اسپتال بھی اس مافیا سے محفوظ نہیں، آپ جیسے ہی گاڑی پارک کریں گے تو کوئی نہ کوئی فوراً اس سڑک کا ٹھیکیدار آپ کے سامنے نمودار ہوگا اور آپ سے پارکنگ کی فیس زبردستی وصول کرے گا جس کی کوئی رسید بھی نہیں دے گا، جو لوگ اسپتال میں ایمرجنسی میں آتے ہیں اس وقت بھی یہ اہلکار ان کو نہیں بخشتے اور یہ سب کچھ سرکاری اہل کاروں کی سرپرستی میں باضابطہ طور پر وضع کردہ نظام کے تحت ہورہا ہے۔ شہر میں کوئی ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں بسیں موجود نہیں شہریوں کی واحد سستی سواری ان کی ذاتی موٹر سائیکلیں ہیں اور اس خراب نظام کی وجہ سے وہ کہیں 20روپے کی کوئی ضرورت کی چیز لینے کے لیے روکتے ہیں تو 20روپے پارکنگ ’’بھتا‘‘ دینا پڑتا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کی ایک اپنی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ کروڑوں روپے شہری حکومت کے اکائونٹس میں آہی نہیں رہے ہیں۔ شہر میں کے ایم سی کے تحت کُل 196 مقامات پر پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے لیکن ان میں سے صرف 34 مقامات ہی ریکارڈ کا حصہ ہیں، یوں 162 مقامات پر وصول کی جانے والی پارکنگ فیس مافیاز کا پیٹ بھر رہی ہیں۔ کراچی میں پہلی چارجڈ پارکنگ کا آغاز ہوا 1993میں ہوا تھا، ابتدا میں مصروف تجارتی مرکز صدر میں سر آغاخان روڈ اور زیب النسا اسٹریٹ پر چارجڈ پارکنگ شروع کی گئی جس کے بعد اس نے ایک منظم دھندے کی شکل اختیار کرلی اور اس وقت بھی جماعت اسلامی کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور پروفیسر غفور احمد نے پارکنگ کی فیس کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارکنگ کی سہولت فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے کراچی کے شہری پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی کررہے ہیں۔ ہماری رائے میں بھی کراچی میں جو منظم چارجڈ پارکینگ کے عنوان سے ’’بھتا‘‘ وصولی ہے وہ کراچی کے شہریوں پر ظلم ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔