امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ”ناکام“ بغاوت – مسعود ابدالی

557

امریکہ کے شیطان کی آنت کی طرح طویل اور پیچ در پیچ صدارتی انتخابات آخرکار 7 جنوری کو صبح چار بجے اختتام کو پہنچے۔ قارئین یقیناً حیران ہوں گے کہ پچاس ریاستوں اور امریکی دارالحکومت سے آنے والے انتخابی ووٹوں کے 51 لفافوں کی جانچ پڑتال میں 17 گھنٹے کیوں لگے؟ ”ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا“۔ تاخیر کا باعث بننے والا تماشا ساری دنیا نے دیکھا۔ اس ناٹک پر گفتگو سے پہلے حتمی نتائج کی تفصیل:۔

سرکاری اور حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن 316 انتخابی ووٹ لے کر امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے۔ ان کے حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 انتخابی ووٹ حاصل کیے۔ اسی کے ساتھ شریمتی کملا دیوی ہیرس امریکہ کی 49 ویں نائب صدر چن لی گئیں۔ 78 سالہ جوبائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین نومنتخب صدر ہیں تو ہیرس صاحبہ کو امریکہ کی پہلی سیاہ فام ہند نژاد خاتون نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔

عام یا پاپولر ووٹوں کو گنا جائے تو صدر ٹرمپ کے 7 کروڑ 42 لاکھ (47 فیصد) ووٹوں کے مقابلے میں 8 کروڑ 13 لاکھ (51فیصد) امریکیوں نے جوبائیڈن کے حق میں رائے دی۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 66.7فیصد رہا جو گزشتہ ایک سو سال کے دوران ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے 1996ء کے انتخابات انتہائی مایوس کن تھے جب صرف 49 فیصد ووٹروں نے پولنگ بوتھ تک جانے کی زحمت گوارا کی۔ ان انتخابات میں بل کلنٹن نے دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی تھی۔

3 نومبر 2020ء کو صدارت کے ساتھ امریکی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں کے انتخابات بھی منعقد ہوئے۔ قصر مرمریں (وہائٹ ہائوس) کی کنجیاں کھو دینے کے باوجود ایوانِ نمائندگان کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہی اور 2018ء کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کی پارٹی نے اپنے پارلیمانی حجم کو 197 سے بڑھا کر 212 کرلیا۔ اب 435 رکنی ایوانِ نمائندگان کی 222 نشستیں جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹس نے 232 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ واضح اکثریت کے لیے 218 نشستیں درکار ہیں، یعنی برسراقتدار جماعت کو صرف 4 سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔

سینیٹ کی 50 نشستیں ری پبلکن پارٹی کے پاس ہیں تو بقیہ 50 پر ڈیموکریٹس اور ان کے دو آزاد اتحادی تشریف فرما ہیں۔ تاہم بربنائے عہدہ سینیٹ کی صدارت امریکی نائب صدر کے پاس ہے، چنانچہ کملا ہیرس صاحبہ پچاس پچاس سے مقابلہ برابر ہوجانے کی صورت میں ”فیصلہ کن“ (Tie-Breaker)ووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّا پار لگا سکتی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں حکمراں جماعت کو ”تکنیکی“ برتری حاصل ہوگئی ہے۔

حتمی نتائج کے بعد آتے ہیں 6 جنوری کو پیش آنے والے واقعے کی طرف، جس نے امریکہ کے سیاسی کلچر بلکہ اس کی بنیادی جمہوری اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔

امریکی دارالحکومت اس سے پہلے بھی حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ واشنگٹن 1814ء میں بڑی تباہی کا ہدف بنا تھا جب میجر جنرل رابرٹ راس (Robert Ross) کی قیادت میں حملہ آور برطانوی فوج نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، امریکی صدر جیمز میڈیسن اپنے رفقا کے ہمراہ وہاں سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ فرنگی افواج نے امریکی ایوانِ صدر اور دوسری سرکاری عمارات کے ساتھ امریکی کانگریس (پارلیمان) المعروف Capitol کو بھی نذرِآتش کردیا جو صرف چند سال پہلے ہی مکمل ہوا تھا۔

11 ستمبر 2001ء المعروف نائن الیون کو بھی امریکی دارالحکومت حملے کا ہدف تھا، جب امریکن ائرلائنز کی پرواز 77 واشنگٹن کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے ہی اغوا کرلی گئی۔ اغوا کاروں نے اس جہاز کو امریکی وزارتِ دفاع (Pentagon) پر گرا دیا، جس سے جہاز پر سوار مسافروں اور عملے کے 64 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ زمین پر فوجی افسروں سمیت امریکی وزارتِ دفاع کے 125 اہلکار مارے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دن اغوا ہونے والی یونائیٹڈ ائرلائنز کی پرواز UA-93کا ہدف Capitol تھا، لیکن مسافروں کی مبینہ مزاحمت کے باعث یہ جہاز پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہوگیا۔ دروغ بر گردن راوی، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بدنصیب طیارے کو امریکی فضائیہ کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل سے گرایا گیا۔

برطانوی حملے کے تقریباً 206 سال بعد بدھ 6 جنوری کو ایک بار پھر Capitol یرغمال بن گیا۔ اِس بار غیر ملکی فوج نہیں بلکہ خود امریکی صدر کے اکسانے پر ہزاروں قدامت پسند و قوم پرست مظاہرین کانگریس کی عمارت میں گھس گئے۔ اس وقت 2020ء کے صدارتی انتخاب کے نتائج کی توثیق و تصدیق کے لیے دونوں ایوانوں یعنی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس بھی وہاں موجود تھے۔

یہ واقعہ ٖغیر متوقع نہیں تھا۔ صدرٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کانگریس کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کئی دن پہلے سے کررکھا تھا، اور مظاہرے میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے ہزاروں لوگ دو دن پہلے سے واشنگٹن پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اس سے ایک دن قبل ریاست جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں پر ضمنی انتخاب تھا، اور کشیدگی کا آغاز پیر 4 جنوری سے ہوا جب صدر ٹرمپ اور نومنتخب صدر جوبائیڈن دونوں اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے کرنے وہاں پہنچے۔ صدر ٹرمپ نے جارجیا کے دیہی علاقے کے طوفانی دورے میں کئی مقامات پر عوام کے بڑے بڑے ہجوم سے خطاب کیا۔ ہر جگہ انھوں نے اپنے حامیوں کو ”سوشلسٹوں“ کے قبضے سے ڈرایا۔ اپنی تقریروں میں صدر ٹرمپ نے عوامی مینڈیٹ کے تحفظ اور غداروں سے ملک بچانے کے لیے جارجیا کے ہر شخص کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی۔ انھوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر کھڑے رہیں، اس لیے کہ ”غدار گورنر“ اور جارجیا کے نااہل سیکرٹری آف اسٹیٹ عوامی مینڈیٹ کی چوری روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جارجیا کے گورنر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ دونوں کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے اور گورنر برائن کیمپ نے بھرپور انداز میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔ لیکن صدر ان دونوں پر سخت برہم ہیں۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ نے نتائج میں کسی بھی قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لیے ووٹوں کی تین بار گنتی کروائی لیکن نتیجہ تبدیل نہ ہوا۔ صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ انتخابی نتائج کی تصدیق نہ کریں۔ صدر کی گورنر سے ہونے والی ایک بات چیت بھی منظرعام پر آئی جس میں جناب ٹرمپ سخت غصے سے کہہ رہے تھے کہ ”میرے لاکھوں ووٹ چوری ہوئے ہیں، مجھے بس 11780 ووٹ مزید دلوا دو“۔ جارجیا میں جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ سے 11789ووٹ زیادہ لیے ہیں۔

جارجیا کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے دونوں نشستوں پر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو ہرا دیا، جس پر موصوف مزید اشتعال میں آگئے اور اپنے کارکنوں کے نام پیغام میں کہا کہ کمزوروں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، اور اگر ان دھاندلیوں کو خاموشی سے برداشت کرلیا گیا تو پھر ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔

مزے کی بات کہ مبینہ بدعنوانیوں اور انتخابی بے قاعدگیوں کے خلاف صدر ٹرمپ نے امریکی عدالتوں میں 50 سے زیادہ درخواستیں دائر کیں، لیکن بلا استثنا ان کی تمام انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت میں خارج کردی گئیں۔ ان کی درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دینے والوں میں سپریم کورٹ کے وہ تین جج بھی شامل ہیں جن کی تقرری خود صدر ٹرمپ نے کی تھی۔

اس سے پہلے ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب ایک انتخابی کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج کے ارکان یا الیکٹرز (Electors) کا چناو عام انتخابات کے نتائج کے مطابق کیا جاتا ہے۔ دسمبر کی 14 تاریخ کو امریکی دارالحکومت اور تمام کی تمام 50 ریاستوں میں الیکٹورل کالج کے انتخابات ہوئے تھے جن کی تصدیق کے لیے 6 جنوری کو نائب صدر کی سربراہی میں کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ نائب صدر مائیک پینس عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کو ناکام بنانے کے لیے پنسلوانیا، مشی گن، وسکونسن اور ایری زونا سے آنے والے انتخابی کالج کے نتائج کو مسترد کردیں۔

نائب صدر نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کا دبائو مسترد کردیا کہ وہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس قواعد و ضوابط کے مطابق چلائیں گے۔ لیکن قدامت پسندوں کے زبردست دبائو کی بنا پر صدر کے حامی ارکانِ کانگریس نے توثیقی مرحلے کو روکنے کے لیے بھرپور مزاحمت کا عزم ظاہر کیا۔ ری پبلکن پارٹی کے 13 سینیٹروں اور ایوانِ نمائندگان کے 140 سے زیادہ ارکان نے مختلف ریاستوں کے انتخابی نتائج کو کالعدم کرنے کی قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ کو جمع کرا دی۔ اس مہم میں پیش پیش ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور مسوری (Missouri)کے سینیٹر جاش ہالی تھے۔ یہ دونوں حضرات 2024ء کے صدارتی انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔

انتخابی ووٹوں کی تصدیق کے لیے کانگریس کا اجلاس ایک بجے دوپہر کو ہونا تھا۔ صدر ٹرمپ کی اپیل پر سخت سردی کے باوجود ہزاروں افراد کیپٹل کے سامنے جمع ہوگئے، جہاں فرزندِ اوّل ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ارکانِ کانگریس کو متنبہ کیا کہ وہ قومی امنگوں کا خون کرنے کی سازش میں شریک ہوکر عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں کہ امریکی قوم دھاندلی کے مجرموں کے ساتھ جرم میں شریک ہر فرد کو نشانِ عبرت بنادے گی۔ ساڑھے گیارہ بجے جب صدر ٹرمپ جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو عوامی اشتعال عروج پر تھا۔ STOP THE STEAL یعنی چوری روکو کے فلک شگاف نعروں سے سارا دارالحکومت گونج اٹھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اپنے آتشیں خطاب میں امریکی صدر نے انتخابی دھاندلی کو ملک پر سوشلسٹوں کے قبضے کا نقطہ آغاز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مینڈیٹ کی چوری کو اِس بار ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا تو ری پبلکن پارٹی قیامت تک کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ جلسے کے بعد ہم کانگریس کی طرف مارچ کریں گے تاکہ ارکان کو عوامی جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ مزید جوش دلانے کے لیے انھوں نے کہا کہ میں بھی آپ کے شانہ بشانہ رہوں گا۔ تاہم جلسے کے بعد امریکی صدر وہائٹ ہائوس واپس چلے گئے۔

جلسہ ختم ہوتے ہی تیس ہزار سے زیادہ کا مجمع USA, USA کے نعرےلگاتا CAPITOLکی طرف روانہ ہوا۔ عمارت کی سیڑھیوں سے سینیٹر جاش ہالی نے مُکّہ بناکر ہجوم کو مزید اشتعال دلایا۔ جاش ہالی صاحب ایک تجربہ کار وکیل اور اپنی ریاست کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔

عمارت کے دروازوں پر مامور پولیس دھکم پیل میں پیچھے ہٹ گئی اور مشتعل ہجوم کئی دروازوں سے اندر داخل ہوگیا۔ بہت سے جیالے دیوار کے ذریعے چھت پر چڑھ گئے۔ اُس وقت ایوان کا ماحول کشیدہ تھا اور ایری زونا کے انتخاب کو کالعدم کرنے کے لیے دھواں دھار بحث ہورہی تھی۔ سیکورٹی اہلکاروں کے لیے ارکانِ کانگریس کی حفاظت پہلی ترجیح تھی، چنانچہ دروازے پر تعینات نفری بھی اندر بلالی گئی، جنھوں نے قانون سازوں کو حفاظتی حصار میں لے کر تہہ خانے پہنچا دیا۔ داخلی راستہ صاٖف ہونے پر مزید مظاہرین اندر گھس آئے اور دفاتر میں توڑ پھوڑ شروع کردی۔ بے قابو ہجوم کے ساتھ مغربی ورجینیا کی ریاستی اسمبلی کے رکن ڈیرک ایونز (Derrick Evans) بھی عمارت میں داخل ہوئے اور فاضل قانون ساز یہ تمام مناظر سوشل میڈیا پر براہِ راست دکھاتے رہے۔ حساس مقامات پر بلااجازت داخلے، ہجوم کو تشدد پر اکسانے اور کارِ سرکار میں مداخلت پر موصوف کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ایک وفاقی جج نے انھیں ذاتی ضمانت پر رہا کرتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا کہ جناب ایون کے خلاف جلد از جلد فردِ جرم ترتیب دی جائے۔

اس دوران پولیس کے ایک افسر کو مظاہرین نے دروازے کے دو پٹ کے درمیان پھنسا دیا، ویڈیو پر اس افسر کی دردناک چیخیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ دوسرے پولیس افسر کو زمین پر گراکر بری طرح پیٹا گیا۔ پولیس نے بلوے کے دوران ایک پولیس افسر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ معلوم نہیں یہ وہ بدنصیب تھا جسے دروازے میں پھنسایا گیا، یا لاٹھی، مکوں اور لاتوں کا نشانہ بننے والا افسر ہلاک ہوا؟ پولیس کی فائرنگ، چھت سے گر کر، دل کے دورے اور بھگدڑ میں کچل جانے سے دو خواتین سمیت چار مظاہرین اپنی جان سے گئے۔ صورتِ حال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر نیم فوجی دستے طلب کرلیے گئے۔ دوسری طرف دارالحکومت کی رئیسہِ شہر نے 24 گھنٹے کا کرفیو لگادیا۔ مظاہرین کے منتشر ہونے کے بعد جب صورتِ حال قابو میں آئی تو تصدیق کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی، اور صبح چار بجے تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹوں کی جانچ پڑتال کے بعد انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان کردیا گیا، جس کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں دھاندلی اور بے ایمانی کے شکوہ شکایت کے بعد پُرامن انتقالِ اقتدار کی یاددہانی کرا دی اور کہا کہ امریکی تاریخ کی کامیاب ترین پہلی صدارتی مدت کی تکمیل پر 20 جنوری کو اقتدار نئی انتظامیہ کو منتقل کردیا جائے گا، انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی،اقتدار سے سبک دوشی کے بعد بھی امریکہ کو عظیم ترین بنانے کی تحریک المعروف MAGAجاری رہے گی۔

یہ تو اس واقعے کی روداد ہے، لیکن اس پوری کارروائی کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے کے رویّے نے امریکہ کے نظامِ انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ اس ضمن میں خفیہ ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ نیویارک اور کئی دوسرے شہروں کے پولیس افسر بھی مظاہرین میں شامل تھے، جنھوں نے اپنے سرکاری بیج اور شناختی علامات کو کئی حساس دفاتر کے دروازے کھولنے کے لیے استعمال کیے۔

گزشتہ برس مئی کے مہینے میں ایک نہتے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے خلاف واشنگٹن میں ہفتوں مظاہرے ہوئے لیکن عمارت کے اندر جانا تو دور کی بات، مظاہرین کو بیرونی جالیوں سے بھی دوسو گز کے فاصلے پر رکھا گیا۔ جب صدر ٹرمپ نے قریب واقع گرجا جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو پولیس نے پُرامن مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کرکے ان کے لیے راستہ بنایا۔ ان عمارات کے معاملے میں پولیس کتنی حساس ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اکتوبر 2013ء میں ایک 34 سالہ سیاہ فام Dental Hygienist مریم کیسی قریبی ریاست کنیٹی کٹ سے گھومنے کے لیے واشنگٹن آئی، گاڑی کی پچھلی نشست پر اس کی 13 ماہ کی بچی اپنے گہوارے میں تھی۔ غلطی سے مریم اُس لین میں چلی گئی جو وائٹ ہائوس کو جاتی ہے۔ داخلے کا گیٹ سامنے آجانے پر مریم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اُس وقت تک اُس کے لیے لین بدلنا ممکن نہ تھا، چنانچہ اس نے اپنی گاڑی کو واپس موڑا جسے ٹریفک کی اصطلاح میں تھری پوائنٹ یوٹرن کہتے ہیں۔ اسے رکنے کا حکم دیا گیا جو وہ غالباً نہ سن سکی اور موڑ کاٹ کر مرکزی شاہراہ کی طرف روانہ ہوئی۔ اس کا پیچھا کرنے والی مسلح پولیس نے بلا تنبیہ اس پر فائرنگ کی۔ مریم کو سر کے پچھلے حصے اور گردن پر آٹھ گولیاں لگیں۔ کیپٹل کے پاس اس کی گاڑی بے قابو ہوکر پولیس ناکے پر کھڑی رکاوٹ سے ٹکرا گئی۔ جواں سال لڑکی موقع پر ہی ہلاک ہوگئی، تاہم بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ مریم کی گاڑی پر بچے کی موجودگی کا نشان بھی لگا تھا۔ انتظامیہ نے واقعے کی ذمہ داری مریم پر عائد کرتے ہوئے فائرنگ کرنے والے تمام افسران کو بے قصور قرار دے دیا۔

کیپٹل کے اندر جانے والے ہر فرد کو جسم و اسباب کی تلاشی دینی ہوتی ہے، اور اس عمل سے ارکانِ کانگریس بھی مستثنیٰ نہیں، لیکن تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین نے اپنی پشت پر بیگ (back pack)اٹھائے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بہت سے مظاہرین مسلح تھے۔ پلاسٹک کی سیکڑوں ہتھکڑیاں بھی ان کے پاس تھیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے وہ ”باغی“ ارکانِ کانگریس کو یرغمال بنانے کی نیت سے آئے تھے۔ عمارت کے دروازے پر کھڑی گاڑیوں میں پیٹرول اور پائپ بموں کا ذخیرہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی دارالحکومت جہاں ہر آنے والے پر جدید ترین آلات اور اسکینرز کی مدد سے نظر رکھی جاتی ہے، بموں سے لدی گاڑیاں کیپٹل تک کیسے پہنچیں؟ امریکی کانگریس نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔

یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کئی دنوں سے اپنے حامیوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے رہے تھے اور اس مقصد کے لیے مخلتف شہروں سے خصوصی بسیں چلائی گئیں۔ دارالحکومت واشنگٹں ڈی سی کی رئیسہ شہر (Mayor)محترمہ میوریل باوزر (Muriel Bowser) نے بتایا کہ انھوں نے دھرنے کے پیش نظر وفاقی حکومت سے نیم فوجی دستے تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ قریبی ریاست میری لینڈ کے گورنر نے انکشاف کیا کہ جیسے ہی صدر ٹرمپ کا جلسہ شروع ہوا، رئیسہ شہر نے ان سے صوبائی پولیس اور نیشنل گارڈ (نیم فوجی دستہ) بھیجنے کی درخواست کی جس پر انھوں نے فوری طور پر اپنی ریاست کے گارڈز کو دارالحکومت جانے کا حکم دیا، لیکن کمانڈر نے بتایا کہ انھیں امریکی فوج کی طرف سے کوچ کی اجازت نہیں ملی۔ 10 جنوری کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے محترمہ موریل نے دارالحکومت کو ریاست کا درجہ دینے اور وفاقی نیشنل گارڈ کی کمان فوری طور پر شہری قیادت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے صدرٹرمپ کو 6 جنوری کے ہنگامے کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا۔ پولیس کی نااہلی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے موریل صاحبہ نے واشنگٹن کے پولیس سربراہ اسٹیون سنڈ (Steven Sund) سے استعفیٰ بھی لے لیا۔

امریکہ کی سیاسی قیادت میئر صاحبہ کے تجزیے سے متفق ہے، اور سینیٹ کے نئے قائدِ ایوان چک شومر نے صدر ٹرمپ کے رویّے کو دماغی خلل قرار دیتے ہوئے اُن کی معزولی کی تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے نائب صدر سے کہا ہے کہ وہ 25 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں اختیارات سنبھال کر صدر ٹرمپ کو گھر بھیج دیں۔ سینیٹر شومر نے دھمکی دی ہے کہ اگر وفاقی کابینہ اور نائب صدر نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو وہ معزولی کی قرارداد سینیٹ میں پیش کریں گے- اب صدر ٹرمپ کے کئی قریبی رفقا بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں۔ وزیر مواصلات (Transportation) محترمہ ایلین چائو مستعفی ہوگئیں۔ ایلین چائو صاحبہ سینیٹ کے قائدِ ایوان مچ مک کانل کی اہلیہ ہیں۔ اس کے دوسرے دن وفاقی وزیر تعلیم بیٹسی ڈیوس نے استعفیٰ دے دیا۔ محترمہ ڈیوس بدنام زمانہ بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کی ہمشیرہ اور صدر ٹرمپ کی نظریاتی حلیف ہیں۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی سے بات کرکے جنرل کو بتادیا کہ صدر ٹرمپ کا دماغی توازن درست نہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں فوج کے کماندارِ اعلیٰ کی حیثیت سے وہ غیر ذمہ دارانہ عسکری مہم جوئی نہ کربیٹھیں۔ اسپیکر صاحبہ کا کہنا تھا کہ انھیں جوہری ہتھیار کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔

ابلاغ عامہ نے صدر ٹرمپ کے دھرنے کا بائیکاٹ کیا اور فاکس نیوز کے سوا کسی چینل نے صدر کی تقریر براہِ راست نہیں دکھائی۔ ٹویٹر اور فیس بک نے صدر کے کھاتے (اکائونٹ) معطل کردیے ہیں۔

واشنگٹن کے ہنگامے پر ردعمل یقیناً فطری ہے، لیکن ہمارے خیال میں بعد از خرابیِ بسیار یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی نفرت کی شاہراہ سے کیا تھا۔ وہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے رہے اور صاٖف صاٖف کہا کہ برسرِ اقتدار آتے ہی وہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کردیں گے۔ وعدے کی تکمیل میں انھوں نے 6 مسلم ممالک کے ویزوں پر پابندی لگادی۔ اس متعصبانہ قدم کو سپریم کورٹ نے توثیق سے سرفراز کیا۔ صدر ٹرمپ ہسپانوی تارکین وطن کو rapist، غنڈے، جرائم پیشہ، قاتل اور منشیات فروش قرار دیتے رہے لیکن نہ تو ٹویٹر نے کوئی کارروائی کی، نہ فیس بک نے انھیں کوئی تنبیہ جاری کی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا مرے کو سو درے لگارہا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ جناب ٹرمپ کا باب اب بند ہوچکا اور وہ صدارتی فرمان کے ذریعے ان اداروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کرسکتے تو اب فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ یوٹیوب کے ”ضمیر کی خلش“ بھی اب ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔

بلیک لائیوز میٹر (BLACK LIVES MATTER)کے رہنمائوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر 6 جنوری کو قوم پرست گوروں کے بجائے سیاہ فاموں کا ہجوم کانگریس کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کرتا تو روکنے کے لیے گولیاں نہیں اُن کے خلاف بم اور میزائیل استعمال ہوتے، اور پینٹاگون جو نیشنل گارڈ بھیجنے سے ہچکچا رہا تھا… ٹینک، بکتربند اور توپ خانہ طلب کرلیتا۔

نسلی تعصب کے ذمہ دار صرف صدر ٹرمپ نہیں۔ رنگ داروں، مسلمانوں اور دوسری لسانی و سماجی اقلیتوں سے امتیازی سلوک امریکی معاشرے کے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ ہر خرابی کا منبع صرف سیاہ فاموں کو سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی کہ ہندوپاک سے آئے ہوئے پلاسٹک امریکیوں کی بڑی تعداد بھی اسی خیال کی حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی حفاظت پر تعینات پولیس نے سفید فام ہجوم کی راہ میں کوئی خاص مزاحمت نہیں کی کہ انھیں ”مہذب“ گوروں سے کسی شرپسندی کی توقع نہ تھی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ بس ”خود کردہ را علاج نیست“ والی بات ہے۔

(This article was first published in Friday Special.)