سرمایہ داری کا خاتمہ محنت کشوں کے ذریعے

879

عوام کی روزمرہ کی زندگی میں تصرف کیے بغیر ہم انقلابی اسلامی جدوجہد کو فروغ نہیں دے سکتے۔ عوام اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں روزی کمانے کے لیے بہت وقت صرف کرتے ہیں۔ ان اوقات میں عوام کے اندر ان کی اسلامی شناخت کو ابھارے بغیر ان کے قلوب تک رسائی نہایت دشوار ہے بالخصوص ان حالات میں جب عوام کی تعلیمی استعداد محدود ہے۔ محنت کش ہی سرمایہ دارانہ استحصال کے اصل شاہد ہیں۔ ان میں سرمایہ دارانہ روحانیت اور انفرادیت تیزی سے ترقی کر سکتی ہے اور اشتراکی سرمایہ دار یہی کوشش کرتے ہیں کہ محنت کش سرمایہ دارانہ روحانیت اور ذہنیت اپنا لیں اور ان کی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ حقوق کا حصول اور سرمایہ دارانہ عدم مساوات کا قیام ہوتا ہے۔ یہ کمیونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹ سرمایہ داروں کا مشترکہ موقف ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ عدم مساوات کے قیام کو ظلم عظیم تصور کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ظلم کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظم ملکیت اور ریاست کے انہدام ہی سے ممکن ہو گا۔ ہمیں محنت کشوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا ہے کہ ان کی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ عدم مساوات کا قیام نہیں سرمایہ دارانہ ملکیت اور ریاست کا انہدام ہونا چاہیے۔
محنت کشوں کے تین گروہ: محنت کش ہم ہر اس فرد کو کہتے ہیں جس کی آمدنی کا انحصار سود اور سٹہ کی مارکیٹوں کی کارفرمائی سے براہ راست نہ ہو۔ ان معنوں میں پاکستانی عوام کی ایک عظیم اکثریت محنت کشوں پر مشتمل ہے جو کئی حصوں میں منقسم ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق ملک کے محنت کشوں کا 86 فی صد غیر رسمی (انفارمل) شعبہ میں اور تیرہ فی صد باضابطہ (فارمل) شعبہ میں ہے۔ غیر رسمی شعبہ کے محنت کش دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک حصہ ان محنت کشوں پر مشتمل ہے جو اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ ان میں چھوٹے دوکان دار، آڑھتی (اگر وہ مہاجن نہ ہوں)، ریڑھی والے، رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور، کاشت کاروں کے ملازم اور مزارع شامل ہیں۔ (کاشت کاروں میں وہ افراد شامل نہیں جنہیں وڈیرے کہا جاتا ہے)۔ غیر رسمی شعبے کا دوسرا حصہ گھریلو ملازمین پر مشتمل ہے۔ باضابطہ شعبے کے بھی کئی حصے ہیں۔ ایک شعبہ بڑے کاروبار اور سرکاری اداروں کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتے ہیں۔ اور ایسی ملازمتیں بتدریج کم ہو رہی ہیں۔ ان اداروں کے ملازمین یونینوں میں منظم ہو سکتے ہیں لیکن یونینوں میں ان کی شمولیت اب بہت کم رہ گئی ہے اور یونینوں پر دہریہ سیاسی جماعتوں اور مطلب پرست قیادتوں کا قبضہ ہے۔ اسی گروہ کا دوسرا حصہ بڑے اداروں میں بھرتی کیے جانے والے ان دہاڑی کے مزدوروں پر مشتمل ہے جن کے سرمایہ دارانہ حقوق تقریباً معطل ہیں۔ ان کو بھرتی کرانے والے چوں کہ عموماً سرمایہ دار نہیں ہوتے لیکن سرمایہ داروں کے گماشتے ہوتے ہیں۔ جنہیں محنت کشوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ بے روزگار افراد جن کی تعداد اب کروڑوں میں ہے زیادہ تر اسی باضابطہ شعبہ میں ملازمت حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ نج کاری کے عمل کے نتیجے میں باضابطہ شعبہ مستقل بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
باضابطہ شعبہ میں ایسے تاجر اور آجر بھی شامل ہیں جو ٹیکس تو دیتے ہیں لیکن سود اور سٹے کی مارکیٹوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ آئی ٹی کی صنعت میں ایسے کاروباریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کو بھی سرمایہ دار تصور نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان پر سرمایہ دارانہ کلبوں میں شامل ہونے کا دبائو بہت زیادہ ہے، یہ دبائو ملٹی نیشنلز سے اشتراک کے ذریعے یا سودی اور سٹہ مارکیٹوں سے تعلقات استوار کرنے کے ذریعے آتا ہے، ہمیں کرنا یہ ہے کہ محنت کشوں میں اسلامی روحانیت اور ذہنیت کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جائیں ان میں حلال کاروبار کے مواقع کا فروغ بھی ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظم ملکیت اور ریاست کا انہدام ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہمارے مذہبی قائدین ہماری تاریخ میں عوامی قیادت کا سرچشمہ ہمیشہ رہے ہیں لیکن فی زمانہ یہ قیادت
فراہم کرنے کی ذمے داری کا احساس نہیں کرتے۔ ان کا دائرۂ اثر محدود نہیں لیکن ان کا سیاسی دائرۂ کار محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس ہی روایتی عوامی اسلامی قیادت کے اردگرد محنت کشوں کو مجتمع اور متحرک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ محنت کشوں کے محلوں اور بڑے اداروں، کارخانوں اور دفاتر میں محنت کشوں کی مذہبی عصبیت کو ان کی سیاسی اور معاشرتی جدوجہد سے منسلک کرنا ممکن ہے۔ تاکہ محنت کشوں کی صفوں میں سرمایہ دارانہ حقوق کی طلب فروغ نہ پائے بلکہ محنت کشوں کی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ ملکیت اور ریاست کا انہدام ہو۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت اور روحانیت فروغ نہ پائے بلکہ محنت کشوں کی جدوجہد مذہبی سیاسی جدوجہد کا حصہ بن جائے۔ حلال رزق کو فروغ دینے کے لیے دو اقدام ہیں۔ ایک تو دہریہ (نظام) کو ناکام بنانا اور محنت کشوں کو یہ احساس دلانا کہ ان کی ٹیکس میں دی ہوئی رقوم اور حکومتی دستاویزات لامحالہ سود اور سٹے کی مارکیٹوں میں ضم کر دی جاتی ہیں اور او رقومات پر دہریہ سرکار مکمل تسلط حاصل کر لیتی ہے۔ ان کے استعمال پر کوئی اسلامی گرفت سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ بلاواسطہ محصولات کا نظام کبھی کسی بھی اسلامی ریاست میں کارفرما نہ رہا۔ یہ قطعاً غیر اسلامی ہے۔
حلال رزق کو فروغ دینے کا دوسرا طریقہ ایک مضبوط بلکہ ہمہ گیر تمویلی نظام کا فروغ ہے جو کسی اسلامی جماعت کے تحت قا ئم کیا جاسکتا ہے اور جس کے ذریعے مخلصین دین کی بچتیں (امانتیں) جماعت کے تاجروں، صنعت کاروں اور کاشت کاروں کے کاروباروں میں لگائی جا سکتی ہیں۔ اس نوعیت کی اسکیمیں جنوبی لبنان اور ملائشیا میں کامیابی سے چلائی جا رہی ہیں اور تفصیل اس اجماع کی یونس قادری کی کتاب ’’اسلامی بینک کاری کا متبادل‘‘ میں درج ہے۔ حلال کاروبار کے فروغ اور تحفظ سے سرمایہ دارانہ ملکیت کو ملک کے معاشی نظام سے بتدریج بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ ملکیت کی اصل سود اور سٹہ مارکیٹ ہیں جن کے ماتحت تمام کارپوریشنیں کام کرتی ہیں۔ زر کے بازار سے سودی لین دین اور سٹہ کے بازار سے حصص اور تمسکات کے بیوپار کے ذریعے معیشت پر سود اور سٹے مارکیٹوں کے تحکم کو کمزور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدام کیے جا سکتے ہیں۔ نجکاری مہم کی ملک گیر اور بھرپور مخالفت۔ اس ضمن میں قلیل المدت لیکن وقتاً ورقتاً جاری رہنے والے سرکاری شعبہ کے کارخانوں وغیرہ میں ہڑتالوں اور دھرنوں کی منصوبہ بندی۔ اس مزاحمتی مہم کو ریلوے اور بندرگاہ پر مرتکز کیا جائے۔ مزدور تنظیمیں سرکاری اداروں کے تمام قرضہ جات اور سودی ادائیگیوں کی منسوخی کی مہم چلائیں جس کی صوبائی اور وفاقی سطح پر پارلیمانی رپورٹ مرتب کی جائے۔ تمام کارپوریشنوں (سرکاری اور نجی) کی اعلیٰ انتظامیہ میں اکثریتی محنت کش نمائندگی قائم کرنے کی مہم۔
ایکسپورٹ پراسینگ زونزمیں محنت کش تنظیم سازی پر پابندیوں کے خلاف مزاحمت۔ یہ اقدام نہایت دشوار ہیں کیونکہ محنت کش تنظیموں پر اشتراکیوں، دہریہ سیاسی جماعتوں اور مطلب پرستوں کا قبضہ ہے۔ پہلا قدم جو اس قسم کی پیش رفت کو منظم کرنے کے لیے اٹھانا چاہیے وہ محنت کشوں کے کوائف کا تحقیقی جائزہ ہے۔ اس کے بعد عملی اقدام کیا جانا چاہیے۔