خدا سے خالی دنیا

601

ہمارے چاروں طرف اسلام پر طرح طرح کے علمی اور اخلاقی اعتراضات ہورہے ہیں اور ہمارے پاس ان اعتراضات کا کوئی علمی وعملی جواب بھی نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ذہن اور نفس کی تعمیر کے کسی بھی مرحلے پر ہم نے دین کو اپنا رہنما اور معمار نہیں بنایا۔ ہمارا موجودہ ذہن جدیدیت کے تصورِ علم اور اس تصورِ علم پر بننے والے نظامِ تعلیم کی پروڈکٹ ہے۔ تو آپ خود سوچیے کہ جس نظامِ تعلیم کو اس نظریے نے بنایا ہوکہ انسان کو خدا سے نجات دلاؤ، اس نظریے سے بننے والے نظامِ تعلیم کو اپنا کر ہمارے ذہن میں خدا کے لیے کوئی مرکزی جگہ رہ جائے گی؟
تو جناب اس خطرے کا احساس کریں اور اپنے دین اور اپنی آدمیت کی حفاظت کا کچھ سامان کریں۔ اس سلسلے میں ایک تدبیر ہے جو اگر اختیار کر لی جائے تو امید ہے کہ خدا سے خالی اس دنیا میں اللہ والا بن کر رہنا ممکن ہوجائے گا۔ وہ تدبیر یہ ہے کہ جو علم بھی حاصل کرو اس پر چیک رکھو کہ یہ اللہ کی معرفت میں ترقی کا ذریعہ بن رہا ہے یا نہیں! علم چاہے کسی غرض اور کسی ضرورت سے حاصل کیا جائے، یہ نظر ضرور رکھنی چاہیے کہ اسے حاصل کرنے کی کوشش میں اور اس کے حاصل ہوجانے کے نتیجے میں مجھے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے یا اس سے دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کا ایک مستقل مقصود ہوتا ہے جسے وہ اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ یہ بات ہم سب کے تجربے میں ہے کہ ہم جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسے اپنی نیند اور بیداری دونوں پر حاکم رکھتے ہیں اور سب چیزوں کو اس کے حوالے سے رد یا قبول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا اگر ہمارا مقصود بن جائے تو ہمارا ہر خیال، ہر خواہش اور ہر عمل اس کی طرف بڑھنے کی قوت بن جاتا ہے۔ اگر ہمیں یہ احساس ہوجائے کہ ہمارا فلاں خیال اور فلاں عمل دنیا سے دور کر رہا ہے تو ہم پورے دل و جان سے توبہ کر کے دنیا کی طرف والہانہ انداز سے واپس لپکتے ہیں۔ دنیا کا نقصان کرنے والا ہر عمل طالبِ دنیا فوراً ترک کر دیتا ہے اور دنیاوی فائدہ پہنچانے والی ہر مشقت خوش دلی سے قبول کر لیتا ہے۔ تو جناب، ہمیں یہ عہد کر کے اس پر ثابت قدم ہو جانا چاہیے کہ ہم ذہن میں حاضر ہر چیز کو، دل میں آنے والی ہر بات کو اور ارادے کا موضوع بن جانے والی ہر شے کو تعلق باللہ کے پیمانے پر پرکھنے کے بعد رد یا قبول کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ کبھی دل میں جھانک کر دیکھو، اس میں وہ حمیت اب بھی چھپی ہوئی ہے جو کسی قیمت پر یہ نہیں چاہتی کہ اسے اللہ سے دور پھینک دیا جائے۔ اس حمیت کو ذرا سی کوشش کے ذریعے سے بیدار کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات اتنی فطری ہے کہ ہرخاص وعام اور ہر عالم وعامی پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مسلسل معائنے اور محاسبے میں رکھے کہ میں اس وقت اورا س لمحے میں اللہ سے قریب ہوں یا دور، اس کی یاد میں ہوں یا اس سے غافل، اس کی فرماں برداری میں ہوں یا نافرمانی میں۔ بس کچھ مہینوں کی محنت ہے جو ذرا حاضر دماغی سے کر لی جائے تو اللہ کے حضور میں رکھنے والا ایک روحانی آرڈر ان شاء اللہ خود بخود تمہارے اندر چل پڑے گا۔ بس تین چار ماہ اس پر لگا دو محنت کے ساتھ، حاضر دماغی کے ساتھ، سچائی کے ساتھ اور بہادری کے ساتھ۔ پوری کوشش کرو کہ یہ بات ذہن، جذبے، احساس اور ارادے میں ایک فعال مرکزیت اختیار کر لے کہ اللہ ہی معبود ہے، وہی حاکم ہے، وہی مقصود ہے ، وہی مطلوب ہے اور وہی محبوب ہے۔ مسلم نفسیات اور تہذیب کی تاسیس، تشکیل اور تکمیل کے تمام مراحل تعلق باللہ اور اس کے ان مستقل زاویوں سے طے ہوتے ہیں۔ انسان محض حیاتیاتی وجود نہیں ہے کہ تبدیلی کی ہر لہر میں بہتا چلا جائے اور تاریخ کے ہر جبر کو خوش دلی سے قبول کرتا رہے۔ ہم ایک ایمانی شعور اور اخلاقی وجود ہیں۔ یہی ہماری حقیقت اور غایت ہے۔ تاریخ اگر اس پر ضرب لگائے گی اور تبدیلیوں کا بے لگام ریلا اگر اس سے ٹکرائے گا تو ظاہر ہے کہ ہم مزاحمت کریں گے اور تاریخ پرستی کا وہ رویہ اختیار نہیں کریں گے جو جدیدیت کا شعار ہے۔ تاریخ اور اس کا اصولِ تغیر ایسا مطلق نہیں ہے کہ شعور کا ثبات کے اصول اور تصور سے دست بردار ہونا ضروری ہوجائے۔ لیکن اس پر پھر کہیں بات کریں گے، فی الوقت ہمارا مدعا یہ ہے کہ جدیدیت کی طرف سے ایمانی شعور اور اس کے زیرِ اثر بننے والے اخلاقی وجود کو جو چیلنج در پیش ہے اس سے کس طرح سرخ روئی کے ساتھ عہدہ برآہوا جائے۔ اس پر ابھی یہ تجویز عرض کی ہے کہ تعلق باللہ کا زندہ شعور ہی ہمیں اس یلغار سے بچا سکتا ہے اور اس وباے عام سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
جدیدیت کیونکہ نظامِ عالم بن چکی ہے اور اس کے اکثر تصورات عملی نتائج بھی پیدا کرچکے ہیں، اس لیے بحث مباحثوں میں پہلے جدیدیت کا موقف عملی اور ٹھوس محسوس ہوتا ہے اور اہل ِ مذہب کا موقف خیالی لگتا ہے۔ اس سے قطعِ نظر کہ یہ دونوں تاثرات سراسر غلط ہیں، ہمیں اس بات پر سنجیدگی اور ذمے داری سے غور کرنا چاہیے کہ ہم تاریخ کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ آئڈیلسٹ کیوں بن جاتے ہیں؟ اور بدقسمتی سے یہ آئڈیلزم بھی خواب میں بنایا گیا ہے، بیداری میں نہیں۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا ایمانی شعور کوئی جیتا جاگتا شعور نہیں رہ گیا جس کی وجہ سے اخلاقی وجود بھی ایک تعطل اور پژمردگی کا شکار ہے۔ یعنی ہم ایمان اور اخلاق میں اور دوسرے لفظوں میں کہیں تو دین اور دنیا میں کوئی بامعنی جوڑ پیدا کرنے میں اجتماعی اسکیل پر اور تہذیبی سطح پر فی الحال ناکام ہیں۔ ایسا آئڈیلزم محض خود فریبی ہے جس کی تاریخی اور اخلاقی تاثیر نہ ہو، یعنی جو انفس اور آفاق پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ وہ تصور اور آئڈیا ایک تکلف سے زیادہ کچھ نہیں جو انسان اور تاریخ کے ٹکراؤ کی صورتوں میں انسان کو مغلوب ہو جانے سے نہیں بچاتا۔ یہ بات ہمیں بہت جلد سمجھ لینی چاہیے کہ جو ایمان اخلاقی اور تاریخی نتائج نہ پیدا کرے وہ ایک تصور سے زیادہ کچھ نہیں۔ جھوٹا مومن سچے ایمان کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ تاہم عملاً ہماری ضد یہی ہے کہ ہوسکتا ہے۔ تو خیر، اب ہمارے لیے سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم تعلق باللہ کی فطرت کو ڈھانپ لینے والے گرد وغبار اور کاٹھ کباڑ کو ہٹائیں اور اس فطرت ِ اصلی کو پھر سے بحال کریں۔ یہی واحد صورت ہے موجودہ پستی، بے بسی اور بے حسی سے نکلنے کی۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہمارے تہذیبی اور تاریخی وجود پر کیسی کیسی پستیاں مسلط ہیں! کاش ہم یہ دیکھ سکتے کہ تاریخ کا بہاؤ نہایت تیزی سے اپنا رخ بدلتا جار ہا ہے اور اس تبدیلی کا اثر کسی خاص دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی لپیٹ میں ہر وہ چیز آئی ہوئی ہے جس کا ہونا ثابت ہے یا جو صرف ذہن میں ہے۔ صرف ٹیکنالوجی کے انقلاب ہی نے ذہن اور شے دونوں کو ان کی تعریفات (definitions) سے اس حد تک منقطع کر دیا ہے کہ ہستی کے احوال بھی بدل گئے ہیں اور ذہن کے تصورات بھی۔ ذہن اور شے پر سے نظریاتی گرفت ہٹتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں دین اور اخلاق کا تعلق بھی غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا ایک میکانکی وجود سے زیادہ کچھ نہیں رہ گئی اور آدمی محض ایک حیاتیاتی وجود بننے پر مصر ہے۔ انسان کے لیے اس کی خواہش ہی حقیقی ہے، ساری ذہنی اور عملی صلاحیتوں کو اس خواہش کی تسکین میں صرف ہونا چاہیے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ یہ پیراڈائم شفٹ خود ہم پر بھی اثر انداز ہوچکا ہے۔ تاریخ کا نظامِ تغیر دو باتوں پر چلتا ہے، ایک حالات سے مطابقت کا اصول اور دوسرے انہی حالات سے ٹکراؤ یا مزاحمت کا پرنسپل۔ تبدیلی کے قانون کو اپنے مسلسل نفاذ کے لیے مطابقت اور مزاحمت، دونوں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک چیز بھی غائب یا معطل ہوجائے تو تاریخ کی حرکت رک جائے گی۔ صرف مطابقت اور صرف مزاحمت تبدیلی کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ بلکہ تبدیلی ہی نہیں، ثبات بھی بے حوالہ اور ناقابلِ تصور ہو جاتا ہے۔ اضافیت کا اصول عمل میں نہ رہے تو مطلق بھی بے اصل ہے۔ تو اس پہلو سے دیکھیں تو مطلق اگر اضافیت کے نظام کے تصور کا سبب نہیں ہے تو پھر مطلقیت کا تصور بھی مہمل ہے۔ یعنی، ہم اپنے دین کو عقائد، احکام اور اخلاق کے مستقل اور مطلق اصول کے ساتھ تاریخ کے نظامِ تغیر میں مؤثر حیثیت سے رْو بہ عمل نہیں رکھتے تو پھر ہمارے تمام مسلّمات کی شکست خوردہ ذہن میں بننے والے تصورات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ انسان تبدیلی کے ماحول ہی میں ثبات سے متعلق رہ سکتا ہے، مطلق سے تمام تر تعلق اضافیت کی فضا ہی میں ممکن ہے۔ اسے چاہے جبر کہہ لیں مگر پوری بات یہی ہے۔
(باقی آئندہ)