اقوام متحدہ سے ایک اور امید

435

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے این جی اوز سے متعلق کمیٹی کے سربراہ محمد سلام آدم کے نام ایک خط میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والی بھارت کی قائم کردہ جعلی این جی اوز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ یورپی ادارے ڈس انفو لیب نے پوری تحقیق سے اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ایسی این جی اوز کا سراغ لگایا ہے جن کا عملی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ان کا مقصد پاکستان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا ہے۔ پندرہ سال پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے میں ملوث سات سو پچاس میڈیا آوٹ لٹس اور پانچ سو پچپن ویب سائٹس ڈومین کے خلاف کارروائی لازمی ہو کر رہ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کو ان تنظیموں کی مشاورتی حیثیت کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ منیر اکرم نے اقوام متحدہ سے کارروائی کی اپیل ٹھوس اور ناقابل تردید حقائق کی بنیاد پر کی ہے۔ اس جعل سازی کا پردہ پاکستان نے نہیں بلکہ یورپی ادارے نے چاک کیا ہے اور اس کام کو تکمیل تک پہنچنے میں برسوں کا عرصہ لگا ہے۔
پندرہ سال کے عرصے میں اس جھوٹ ساز فیکٹری کو پاکستان کے امیج اور اس کے اندرونی استحکام کا جو حشر نشر کرنا تھا وہ کردیا ہے۔ پاکستانی ریاست اور معاشرے میں پہلے سے قائم علاقائی، لسانی اور نسلی تقسیم گہری ہو گئی ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان بھی دوری میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے حال اور مستقبل سے مایوس ایک پوری نسل آج پل کر جوان ہو چکی ہے اور وقت نے اس مایوس نسل کے ہاتھ میں اسمارٹ فون کی صورت میں ایک ایسا ہتھیار تھما دیا ہے جو مایوسیوں کے خنجر چلا کر اسے بڑھنے اور پھیلنے میں مدد دیتا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بگاڑ کر رکھ دیا گیا۔ ان جعلی خبروں اور رپورٹس کے پلندے پیش کر کے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالوا دیا گیا ہے۔ پاکستان کو اقلیتوں، سیاحوں اور سرمایہ کاروں کے لیے غیر محفوظ قرار دے کر اس کی معیشت پر کاری وار کیا جا چکا ہے۔ فوج کے بارے میں شکوک اور تذبذب کو گہرا کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے پاسپورٹ کو دنیا میں بے توقیر کرنے میں ان جھوٹ ساز فیکٹریوں کا اہم کردار ہے۔
یہی فیکٹریاں مختلف این جی اوز کے نام پر اقوام متحدہ اور جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاسوں میں چند ایک بلوچ، پشتون، سندھی گلگت بلتستانی اور آزادکشمیری افراد کو سامنے رکھ کر پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتی تھیں کئی بار ان سب کو ایک لڑی میں پرو کر مشترکہ مظاہروں میں شریک کیا جاتا۔ چند ایک پاکستانی چہروں کے پیچھے باقی سب جعلی کردار بھارتی ہوتے تھے جو دنیا میں پاکستان کو پتھر کے دور کی ریاست بنا کر پیش کرتے۔ یہ گلسرین لگا کر آنسو بہاتے ہوئے مغربی اداروں کے سامنے دُہائی دیتے کہ پاکستان کی فوج اور ریاستی ادارے ان کا جینا محال کیے ہوئے ہیں اور وہ انہیں قتل کرنے کے درپہ ہیں ان کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔ یوں ان لوگوں کو سیاسی پناہ بھی حاصل ہوتی اور مغربی ریاستیں یوں بھی زندگی کی باقی آسائشیں دینے کی ریاست پابند ہی ہوتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کی خدمات کا معاوضہ کہیں اور سے حاصل ہوتا۔ یہ عناصر بھارت کے لیے اسٹرٹیجک اثاثوں کا کام دیتے رہے۔ یہ یہی عناصر بیرونی دنیا میں کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کے نعرے لہک لہک کر بلند کرتا تھے۔ یہ نعرہ بھی اسی نیٹ ورک کی اختراع اور ایجاد ہے جسے مختلف تحریکوں میں مقبول بنانے کی کوشش کی گئی۔
اقوام متحدہ اب بھی بھارت اور مغرب کے اثر رسوخ کے زیر اثر ہے اس لیے منیر اکرم کی درخواست کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا یہ واضح ہے۔ اقوام متحدہ کے غض ِ بصر کے باوجود ریاست کو اب اپنی آنکھیں اور کان کھول کررکھنا ہوں گے۔ سب سے پہلے اس نیٹ ورک کو توڑنا ہوگا جو ان جعلی این جی اوز کے لیے پاکستان کے گلی کوچوں میں خبر اور پروپیگنڈے کا مواد فراہم کرتا تھا۔ سوات میں طالبان کی طرف سے خاتون کو کوڑے مارنے کی وڈیو بھی بطور خاص اسی مقصد کے لیے فلمائی گئی وڈیو تھی جس کا مقصد پاکستان کو وحشت اور درندگی اور طالبانائزیشن کی زد میں آنے والی ریاست قرار دینا اور منطقی طور پراس کے ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ ثابت کرنا تھا۔ سہولت کاروں کا یہ نیٹ ورک سری واستو گروپ کے لیے فلمیں اور خبریں تخلیق کرتا رہا۔ مقامی معاونین کے ان ہاتھوں کی تلاش اور انہیں حوالہ ٔ قانون کیا جانا ضروری ہے۔ بھارت دشمن ملک ہے پاکستان کی فالٹ لائنز کو بڑھانا اور متحرک رکھنا اس کا مقصد ہے اور دشمن سے اس کے سوا کس رویے کی توقع کی جا سکتی ہے مگر مقامی سہولت کاروں نے محض دولت کی ہوس اور سیاسی پناہ کی تلاش میں ملک وقوم کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ بہت مشکل سے ہی ممکن ہے۔