حقوق العباد اور حقوق اللہ…

661

اگر ایک طرف فرضِ عین فرضِ کفایہ پر مقدم ہے تو دوسری طرف فرضِ عین کے بھی آپس میں مختلف درجات ہیں۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت اپنے بعض احکام میں ایسے احکام کو زیادہ اہمیت دیتی ہے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہوتا ہے۔
وہ فرضِ عین جس کا تعلق صرف حقوق اللہ سے ہوتا ہے اس میں تسامح ممکن ہے۔ اس کے برعکس وہ فرضِ عین جس کا تعلق حقوق العباد سے ہوتا ہے اس میں یہ ممکن نہیں۔ علما نے کہا ہے: حقوق اللہ مسامحت (نرمی اور چشم پوشی) پر مبنی ہیں اور حقوق العباد مشاحت (یعنی لڑائی جھگڑے) پر مبنی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مثلاً ایک طرف حج واجب ہے اور دوسری طرف قرض کی ادائیگی واجب ہے تو ان میں سے قرض کی ادائیگی کو مقدم کیا جائے گا۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرض ادا کیے بغیر حج کرے، سوائے اس کے کہ وہ قرض خواہ سے اجازت لے یا یہ کہ قرض کی ادائیگی میں ابھی وقت ہو اور اسے یقین ہو کہ حج کی ادائیگی کے بعد وہ قرض اپنے وقت پر ادا کر سکے گا۔
اس مقام پر حقوق العباد اور خاص طور پر مالی حقوق کی اہمیت میں یہ صحیح حدیث بھی کافی ہے کہ اللہ کی راہ میں شہادت بھی، جو ایک مسلمان کے لیے اپنے رب کے قْرب کا یقینی ذریعہ ہے، اس کے قرض کو ساقط نہیں کر سکتی۔ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ’’شہید کے لیے ہر چیز معاف ہے، سوائے قرض کے‘‘۔ (مسلم)
اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہؐ! آپ مجھے بتائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جائوں تو میرے گناہ دھل جائیں گے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ہاں، اگر تم اس حالت میں مارے جائو کہ تم صابر ہو اور آگے بڑھ رہے ہو نہ کہ پیچھے بھاگ رہے ہو‘‘۔
یہ بات کہہ کر نبیؐ نے پوچھا: تم نے کیا کہا تھا؟ آدمی نے اپنا سوال دہرایا۔ آپؐ نے بھی اپنا جواب دہرایا، مگر اب کی بار اس میں یہ اضافہ فرمایا: ’’سوائے قرض کے، یہ بات مجھے جبرئیلؑ نے ابھی بتائی ہے‘‘۔
اس سے زیادہ تعجب کی بات نبیؐ کا وہ ارشاد ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! قرض کے بارے میں دین میں کتنی سختی کی گئی ہے؟ اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر ایک آدمی اللہ کی راہ میں قتل ہو جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل ہوجائے اور پھر زندہ کیا جائے، وہ جنت میں نہیں جاسکے گا جب تک کہ وہ اپنا قرض ادا نہ کردے‘‘۔ (احمد، نسائی)
یہی معاملہ اس شخص کا ہے جو اللہ کی راہ میں ہو یعنی جہاد کر رہا ہو اور وہ مال غنیمت میں خیانت کرے، یعنی اس مال میں سے اپنے لیے کوئی چیز لے لے جو ساری فوج کا حق ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت کی طرف قبضے کے لیے ہاتھ بڑھانا، اسے جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے اجر سے محروم کر دیتا ہے اور اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو یہ اس کے لیے شہادت کے شرف اور شہید کے اجر سے محرومی کا ذریعہ بنتا ہے۔
رسول اللہؐ نے مال غنیمت پر ایک آدمی کو مقرر کیا تھا جسے کرکرہ کہتے تھے۔ جب وہ مر گیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ھُوَ فِی النَّارِ (وہ آگ میں ہے) لوگوں نے جاکر تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس نے مال غنیمت سے ایک جبہ چوری کر لیا تھا۔ (امام بخاری)
صحابہ میں سے ایک شخص خیبر میں وفات پا گیا۔ لوگوں نے نبیؐ سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا: صَلّْوا عَلٰی صَاحِبِکْم (اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو)۔ یہ سْن کر لوگوں کا رنگ اْڑ گیا۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’تمہارے ساتھی نے اللہ کی راہ میں ہوتے ہوئے خیانت کی ہے‘‘۔ لوگوں نے اس کا سامان دیکھا تو انہیں ایک ڈھال ملی جسے یہودی استعمال کیا کرتے تھے، جس کی قیمت دو درہم بھی نہیں ہوگی۔
دو درہم کی خیانت کی وجہ سے نبیؐ نے ایک شہید کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے انکار کیا۔ اس کا مقصد عوامی مال کے لالچ پر بلیغ ترین زجر و توبیخ کرنا تھا، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمرؓ نے کہا: جب غزوہ خیبر کا دن ہوا تو کچھ صحابہ آئے اور کہنے لگے کہ فلاں شہید ہوگیا، فلاں شہید ہوگیا۔ اس دوران وہ ایک اور لاش کے پاس سے گزرے تو کہنے لگے: فلاں بھی شہید ہوگیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ہر گز نہیں، میں نے اسے آگ میں دیکھا ہے، کیوں کہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر (یا ایک جبہ) لیا تھا‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! جاکر لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی نہیں جاسکتا‘‘۔ (مسلم)
یہ احادیث کس بات کی دلالت کر رہی ہیں؟ یہ اس بات کی دلالت کر رہی ہیں کہ ان حقوق کی اہمیت بہت زیادہ ہے، جن کا تعلق مالی امور سے ہو، خواہ عوامی اموال ہوں یا افراد کے ذاتی اموال۔ ان میں ناجائز طور پر مال لینا حرام اور اکل بالباطل ہے، خواہ وہ کتنا ہی کم ہو۔ کیوں کہ اہم کسی کام کا آغاز ہوتا ہے۔ جو شخص آج کم لینے کی جرأت کرتا ہے تو خطرہ ہے کہ وہ کثیر کی جرأت بھی کرے گا۔ صغیرہ گناہ انسانوں کو کبیرہ کی طرف بلاتا ہے۔ بڑے الائو کا سبب چھوٹی سی چنگاری ہی تو ہوتی ہے۔