بدعنوان مافیا طاقتور کیوں…؟

521

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدلنا ہی تبدیلی ہے، لیکن ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی قوتیں اور پرانے سسٹم سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے مافیا تبدیلی نہیں آنے دیتے، پہلے پاناما لیکس اور اب براڈ شیٹ نے حکمران اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کو بے نقاب کردیا ہے۔ رشوت جڑوں تک دھنس چکی ہے، اشرافیہ کا رہن سہن دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ غریب ملک ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خیال میں نظام کو ڈیجیٹل کرنا اور ای گورننس بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کا حل ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف آوازیں گزشتہ تین دہائیوں سے اُٹھ رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر تیسری سیاسی قوت کی حیثیت حاصل کرلی اور اب وہ ڈھائی برس کے حکومتی تجربے سے بھی گزر چکے ہیں۔ اس تجربے کا تازہ حاصل ایک اور اعتراف ناکامی ہے، اس اعتراف ناکامی کا حاصل ان کے الفاظ میں یہ ہے کہ تبدیلی کے راستے میں ’’مافیا‘‘ رکاوٹ ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ تو درست ہے کہ رشوت اور بدعنوانی کے نظام نے حکومت اور پاکستانی معاشرے کی جڑوں تک نفوذ کرلیا ہے، لیکن اس بات کی تشریح نہیں کی کہ پرانے سسٹم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے مافیا کے عناصر ترکیبی کیا ہیں۔ گزشتہ تین عشروں میں بے شمار اسکینڈلز پاکستانی ذرائع ابلاغ نے منکشف کیے۔ انسداد بدعنوانی کے لیے طاقتور ادارے بھی قائم ہوئے لیکن کسی بھی بدعنوان کا حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوسکا۔ عمران خان اور ان کی جماعت 24 سال تک ایک نکتہ یعنی تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاسی تحریک چلاتی رہی اور اسے انتخابی کامیابی بھی حاصل ہوگئی۔ لیکن حکومتی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بدعنوان مافیا کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوگئی ہے۔ وہ خود یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’مافیا‘‘ تبدیلی کے راستے میں اصل رکاوٹ ہے۔ ’’مافیا‘‘ کیسے طاقتور ہوگئی کہ وہ ریاستی اداروں کے احتساب سے بھی آزاد ہے، اس کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ ان کا سیاسی تجزیہ یہ تھا کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا احتساب ہوجائے تو بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن سیاسی قیادتوں کا بھی احتساب ممکن نہیں ہوسکا۔ ظاہر بات ہے کہ جب کسی معاشرے میں بلاامتیاز احتساب ممکن نہ ہو تو کسی کا بھی احتساب نہیں ہوسکتا۔ احتساب صرف نعرے، سیاسی دنگل تک محدود رہا۔ عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ رشوت اور بدعنوانی پاکستانی معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے، لیکن ان کے پاس اس کے اسباب کا درست تجزیہ ہے اور نا ہی اس کا حل۔ سب سے بڑے طاقتور سیاسی منصب پر فائز ہونے کے باوجود ’’مافیا‘‘ کے سامنے بے بسی کا اظہار صورتِ حال کی سنگینی کی علامت ہے۔ اس بے بسی کا احساس غیر متوقع نہیں ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ محض عوامی مقبولیت بدعنوانوں کے احتساب کے لیے کافی ہے، یہ ناکامی اول دن سے ظاہر تھی اس لیے کہ ان کے پاس ایسی ٹیم موجود نہیں تھی جو پختہ سیرت و کردار پر مشتمل ہو، یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے کے باوجود ان کی ٹیم پر بھی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات موجود ہیں اور انہوں نے اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ وزیراعظم کے اعتراف ناکامی کے باوجود یہ پاکستانی معاشرے، سماج اور نظام کی ضرورت ہے کہ خرابیوں کا تجزیہ کیا جائے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی سیرت و کردار کی تربیت کا کیا نظام ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قوم کی قیادت چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، اس کی اہلیت کا کیا معیار ہے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جو عوام کی حمایت لے کر حکومت میں آتی ہیں ان کے پاس قومی مسائل کا کیا تجزیہ موجود ہے۔ وہ کیا معیار ہے جس کی بنا پر کسی فرد کو قیادت و حکومت کا حق اور اختیار حاصل ہوتا ہے۔، اگر ان سوالات کا جواب مل جائے تو کرپشن اور بدعنوانی کے اسباب اور علاج تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جب ریاستی اداروں کے اہلکار ہی بدعنوان ہوں تو وہ بدعنوانوں کا احتساب کیسے کرسکتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے اخلاقی بحران کا سبب یہ ہے کہ سیاست سے اصول اور نظریہ غائب ہوگیا ہے جس نے معاشرے میں مفاد پرستی کو طاقت عطا کی ہے۔ ایک دور وہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کش مکش اصول اور نظریے پر تھی۔ جب سے نظریاتی کش مکش کا خاتمہ ہوا ہے۔ بد عنوان، دولت پرست اور ضمیر فروش عناصر، طبقات طاقتور ہوگئے ہیں۔ ظالمانہ اور استحصالی طبقات کے خلاف آواز کہیں نظر نہیں آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مختلف قسم کی مافیائیں طاقتور ہوگئی ہیں۔ پختہ سیرت و کردار پر مشتمل ایک گروہ کو تیار کیے بغیر بد عنوانی کا بھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔