سال 2021: نئے سیاسی امکانات، کیا کچھ تبدیل ہوسکے گا؟ – سلمان عابد

436

کیا نیا سال 2021ء ماضی سے مختلف ہوگا؟ اورکیا ہم اس برس قومی سیاست، معیشت، اور علاقائی اور خارجی محاذ پر کچھ بہتری دیکھ سکیں گے؟ اگرچہ ہم ہمیشہ نئے برس سے مثبت توقعات وابستہ کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کے امکانات کو پیش کرتے ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ہمارا یہ نیا برس ماضی کے برس سے کیسے مختلف ہوگا۔ اگرچہ 2020ء ایک مشکل سال تھا، ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ اس گزرے برس نے پوری دنیا کو کورونا جیسے موذی وبائی مرض، بدترین معاشی بدحالی اور سیاسی و نفسیاتی مسائل میں الجھائے رکھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ اسے وہ مالی اور جانی نقصان نہیں ہوا جو دیگر بڑے ممالک کو برداشت کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی اور معاشی محاذ پر یہ ہمارے لیے ایک تکلیف دہ سال تھا۔ ہم ابھی تک پچھلے سال کی مشکلات سے باہر نہیں نکل سکے، اور بدستور معاشی محاذ پر کئی طرح کے نئے چیلنجز سے گزر رہے ہیں۔ کورونا کی دوسری لہر بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، دیکھنا ہوگا کہ پوری دنیا سمیت خود پاکستان کتنی جلدی کورونا کی مصیبت سے نجات حاصل کرے۔

2020ء میں ایک بڑا مسئلہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری جنگ یا بداعتمادی کی فضا تھی، اس نے بھی ہماری مشکلات بڑھائیں۔ عمران خان کی حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ سامنے آئی تھی، لیکن حکمرانی کا بحران بدستور موجود ہے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نیا برس یعنی 2021ء بھی سیاسی و معاشی محاذ پر مختلف خرابیوں کی صورت میں ہی چلے گا۔ حزبِ اختلاف2021ء کو عمران خان حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کا سال قرار دیتی ہے۔ جبکہ حکومت کے بقول یہ نیا برس معاشی ترقی سے جڑا ہوگا۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020ء معاشی ترقی کا بر س ہوگا، مگر کورونا کے بحران نے یہ ممکن نہیں ہونے دیا۔

ایک بات طے ہے کہ جس انداز سے موجودہ سیاسی نظام چل رہا ہے وہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اس نظام کی ناکامی کا اعتراف خود وزیراعظم بھی کرچکے ہیں۔ یعنی پاکستان کا سیاسی وجمہوری نظام ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے، اور یہ تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے۔ اس کا اعتراف سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ دیگر فریق بھی کررہے ہیں۔ حکومت کو پہلی بڑی کامیابی اس برس پہلی بار سینیٹ کی سطح پر سیاسی برتری کی صورت میں ملے گی۔ حکومت سینیٹ میں سیاسی برتری کے بعد اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے بعد عملاً گلگت بلتستان کو پانچویں آئینی صوبے کی حیثیت حاصل ہوجائے، جس کا وعدہ وزیراعظم عمران نے کیا ہے۔ یہ کام حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان باہمی اتفاقِ رائے سے ہوگا جو ایک بڑی تبدیلی کا سبب بنے گا۔ کیونکہ اس پر پہلے ہی فوجی قیادت تمام حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے چکی ہے۔

پی ڈی ایم کی تحریک جو موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے سامنے آئی ہے، اس کے داخلی تضادات مزید نمایاں ہوں گے، اور یہ حکومت گرانے یا فوری نئے انتخابات کے امکانات کو پیدا نہیں کرسکیں گے۔ محض تقسیم پی ڈی ایم میں ہی نہیں ہوگی، بلکہ اس میں شامل بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی میں بھی بڑی سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی بڑی سیاسی قیادتوں کا کردار بھی محدود ہوگا۔ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی سیاسی مشکلات کم نہیں ہوں گی، بلکہ ان کو نیب کے تناظر میں کئی انتظامی، سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیونکہ جس انداز سے اِس وقت نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست جو اداروں اور اُن کے سربراہان کے خلاف چلی ہے اُس سے بھی ان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ البتہ پیپلز پارٹی کا سیاسی راستہ اس برس پی ڈی ایم کی مجموعی سیاست سے مختلف ہوگا اور وہ محض اپنے سیاسی مفاد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھے گی۔ آصف زرداری کسی بھی صورت میں نوازشریف اورمولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کو بنیاد بناکر دیوار سے ٹکر مارنے کی سیاست نہیں کریں گے۔ اس برس ہم آصفہ بھٹو کا بھی کردار بڑھتا ہوا دیکھیں گے۔

اس برس جون کے بعد نظا م میں کچھ اہم تبدیلیاں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ موجودہ اسمبلیوں سے ہی ملک میں نظام کی تبدیلی کی بحث کا آغاز ہوگا، اور اس کا نتیجہ اسمبلیوں سے کسی قرارداد کی صورت میں سامنے آئے، جس کا تعلق صدارتی نظام کی تجویز سے ہوسکتا ہے اور معاملہ ریفرنڈم کی طرف بھی جاسکتا ہے۔

اس برس احتساب کے معاملے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوگی اور کئی حکومتی ارکان بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ حکومت سینیٹ میں برتری حاصل کرنے کے بعد نیب کے قانون میں بنیادی ترامیم کرکے احتساب کے نظام کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ بہت سے لوگ جو آپ کو عمران خان کی حکومت کے بہت قریب نظر آتے ہیں، اُن کی جگہ اس برس بہت سے نئے چہرے بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اسی برس ملک میں کسی نہ کسی شکل میں بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی متوقع ہیں۔ وزیراعظم عمران خان عملی طور پر مقامی یعنی ضلعی نظام کو مضبوط کرنے کے حامی ہیں، لیکن ان کی اپنی جماعت اور دیگر بڑی جماعتیں اس نظام سے متعلق سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگر نظام کی تبدیلی کی بات آگے بڑھے گی تو ضلعی نظام وفاق کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کریں گے۔ ہمارے فیصلہ سازی سے جڑے اہم افراد یا اداروں میں یہ اتفاق نظر آتا ہے کہ گورننس کے نظام کو مستحکم کرنے، اور عوامی سطح پر حکمرانی کے جو سنجیدہ مسائل ہیں اُن کا حل مضبوط مقامی نظام حکومت ہے۔ اس برس سیاسی، انتظامی اور قانونی محاذ پر جو اصلاحات ہونی ہیں اس کا بھی براہِ راست تعلق نظام کی تبدیلی سے ہی جڑا ہوا ہے۔

اس برس بھی معاشی صورتِ حال کی بہتری سب سے بڑا چیلنج ہے، بالخصوص عام آدمی کو ریلیف کا ملنا بنیادی نکتہ ہے۔ تعمیرات، ٹیکسٹائل، ٹیلی کام، ٹورازم ایسے شعبے ہیں جہاں حکومت کو یقین ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے، اور تعمیراتی شعبے میں جو مزید مراعات دی گئی ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کاروباری طبقے کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے، لیکن جب تک معاشی بہتری کے نتائج عام آدمی کو نہیں ملیں گے، لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ یہ برس حکومتی کارکردگی کے لیے بھی بڑا اہم ہے، اور اگر اس برس عوامی تصور، حکومت کی بہتر حکمرانی کا نہیں بن سکا اور لوگوں کو واقعی ریلیف نہ ملا تو حکومت کو اس کی بھاری قیمت سیاسی میدان میں چکانا پڑے گی۔ کیونکہ یہ برس اس حکومت کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ اگر موجودہ حکومت اس برس بھی لوگوں کو کوئی بڑا ریلیف نہ دے سکی تو اس کی کامیابی کے امکانات بھی محدود ہوجائیں گے۔

خارجی محاذ پر ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح کردیا ہے کہ ان کا بڑا انحصار اب چین پرہی ہوگا۔ چین پر انحصار کرنے کی وجہ سے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ علاقائی اور عالمی سیاست کے ہمارے کارڈ بھی تبدیل ہوں گے۔ نئے اتحاد بنیں گے اور ملکوں سے تعلقات میں نئے امکانات پید ا ہوں گے۔بھارت اورپاکستان کے درمیان یا کشمیر کے معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت اس برس بھی ممکن نہیں، البتہ سی پیک کے بعد حالات بہت حد تک تبدیل ہوں گے۔ سی پیک کی کامیابی کے کچھ اثرات نمایاں ہوں گے۔ افغانستان سے امن معاہدے کی صورت میں بہتری کے کافی امکانات ہیں۔ البتہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ بھارت اپنے داخلی بحران کی شدت کم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف کوئی مہم جوئی کرسکتا ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم پر فوری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ہے اور ہم اُسے تسلیم کرنے جارہے ہیں۔ اس کا 2021ء میں کوئی امکان نہیں، اور جب تک مسئلہ فلسطین کا کوئی قابلِ قبول حل سامنے نہیں آتا، ہم آگے نہیں بڑھیں گے۔

(This article was first published in Friday Special)