افغانستان اور پاکستان کا امن

494

حزب وحدت اسلامی افغانستان کے سربراہ اور سابق چیئرمین افغان ہائی پیس کونسل استاد کریم خلیل نے دورئہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حزب وحدت کے سربراہ کریم خلیل کا دورئہ پاکستان ایک ایسے مرحلے پر ہوا ہے۔ جب امریکا کی جانب سے افغانستان سے تقریباً مکمل فوجی انخلا کے لیے افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے۔ امریکا سے طالبان کے مذاکرات کے بعد بین الافغان مذاکرات قطر میں جاری ہیں۔ اس کے ساتھ امریکا میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہونے والا ہے، لیکن یہ عمل پُرتشدد شکل اختیار کرگیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عرصہ اقتدار کے چند دن رہ گئے ہیں۔ پرتشدد احتجاج کو شہ دینے کے الزامات میں امریکی پارلیمان میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کردی گئی ہے۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت کے آخری دن تک اپنے اختیارات استعمال کررہے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں شکست کے باوجود ٹرمپ، ان کے مشیر اور داماد جیرڈ کشنراور وزیرخارجہ مائیک پومپیو متحرک اور مصروف ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا ٹرمپ کا فیصلہ تھا اور مکمل انخلا پر پینٹاگان، سی آئی اے اور محکمہ خارجہ نے تحفظات ظاہر کیے تھے، لیکن ٹرمپ کی ہدایت پر ان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی نگرانی میں طالبان سے مذاکراتی عمل جاری رہا اور امریکا افغانستان سے تو انخلا کے لیے تیار ہوگیا، افغانستان سے مکمل امریکی فوجی انخلا کی مخالفت کابل میں قائم افغان حکومت کرتی رہی تھی، بالآخر کابل کی حکومت نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان اور کابل حکومت کے علاوہ بھی کئی کردار ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں۔ انہی میں حزب وحدتِ اسلامی افغانستان بھی ہے۔ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن کے حوالے سے حزب وحدتِ اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد کریم خلیل کا دورئہ پاکستان خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے استاد کریم خلیل سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے۔ پرامن اور مستحکم افغانستان تجارت کی نئی راہیں کھولے گا، پاکستان چاہتا ہے کہ مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے تمام عناصر مل کر کام کریں۔ افغان مسئلہ کے جامع حل کے لیے بین الافغان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے اپنے اس دیرینہ موقف کو دہرایا کہ افغانستان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں اور اس کا واحد حل سیاسی بات چیت ہے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کریم خلیل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔ ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان ہمسایہ ممالک اور پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی توقع ظاہر کی کہ افغانستان میں امن و استحکام آنے سے معاشی ترقی، علاقائی رابطوں اور انہیں آپس میں جوڑنے کا عمل تیز کرنے کا موقع ملے گا۔ کریم خلیل کی پاکستانی عمایدین سے ملاقاتوں میں بین الافغان مذاکراتی عمل میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ کریم خلیل کے دورئہ پاکستان کی اس تناظر میں بھی بڑی اہمیت ہے کہ گزشتہ دنوں ایک دہشت گرد گروہ نے بلوچستان میں مقیم ہزارہ برادری کے گیارہ کان کن مزدوروں کو اغوا کرکے انتہائی بہیمیت، سفاکی اور درندگی سے قتل کردیا تھا۔ یہ مزدور اہل تشیع سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سات مزدور افغان شہری تھے، افغان حکومت نے اپنے شہریوں کی نعشیں افغانستان بھجوانے کی درخواست بھی کی تھی۔ کریم خلیل افغان ہزارہ برادری کے رہنما بھی ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں دوبارہ منظم ہورہی ہیں۔ ان قوتوں میں بھارت کا کردار کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ پاکستان میں امن وامان کی تباہی کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کافی عرصے سے جاری ہے اور اس سلسلے میں مظلوم ہزارہ برادری کافی عرصے سے ہدف ہے۔ اس موقع پر کریم خلیل کے دورئہ پاکستان سے کشیدگی کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔ اب یہ اہم سوال ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد جوبائیڈن افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ امریکا کا موجودہ سیاسی بحران امریکی مقتدرہ میں تقسیم موجود ہے۔ ابھی تک تو جوبائیڈن نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے سفارتی کوششیں جاری رکھی جائیں گی، نومنتخب امریکی صدر کے نامزد قومی سلامتی امور کے مشیر کا بیان اہم ہے کہ امریکا افغانستان کے مسئلے کے حل میں سفارتی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس بیان سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کوئی نئی پالیسی نہیں لائے گی اور افغان امن کے حوالے سے جس عمل کا آغاز ٹرمپ کے دور میں ہوا تھا وہ جاری رہے گا۔ بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور گزر چکا ہے جس میں مذاکرات کا بنیادی نقشہ متعین کرلیا گیا ہے، بین الافغان مذاکرات کامیابی سے جاری رہے تو افغانستان میں امن کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کے فعال ہونے اور ہزارہ برادری کے مزدوروں کے قتل عام نے پاکستان اور افغانستان میں امن کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا کردیے ہیں۔ بہت سی قوتیں متحرک ہیں۔ افغانستان میں بدامنی کا اصل سبب غیر ملکی مداخلت ہے۔ سب سے پہلے سوویت یونین کے 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر فوجی قبضہ کیا جس کی مزاحمت افغان مجاہدین نے کی۔ سوویت یونین کے فوجی انخلا کا نتیجہ کمیونزم کے دنیا سے خاتمے کی صورت میں نکلا لیکن افغان امن برباد ہوگیا۔ اس کے بعد اپنے سامراجی مقاصد کے لیے امریکا 40 ملکوں کی فوج لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا، اس عمل نے پوری دنیا میں دہشت گردی کی آگ کو بھڑکا دیا۔ افغانستان مجاہدین نے دنیا کی واحد سپر پاور کو شکست دی اور امریکا افغان طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوگیا۔ افغان طالبان سے مذاکرات امریکی شکست کی علامت ہیں۔ طالبان نے پرامن فوجی انخلا کی ضمانت دی ہے، اس لیے عالمی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ افغانستان کو امن فراہم کریں۔ بلوچستان کے علاقے مچھ میں پیش آنے والا سانحہ اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں امن کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں مسلم ممالک میں موجود مسائل کو استعمال کررہی ہیں۔ افغانستان کا استحکام اس خطے میں امن کی ضمانت ہے۔ افغانستان کے تمام کرداروں کا فرض ہے کہ وہ خلوص نیت سے اپنے اختلافات کا حل نکالیں، دوست دشمن میں تمیز کریں اور انتشار اور تقسیم کی سازشوں کوناکام بنائیں۔ افغانستان اور پاکستان کا امن ایک دوسرے سے منسلک ہے۔