اب کچھ بھی بیک ڈور نہیں رہا

544

پاکستان میں سیاست، فوج اور اداروں کے درمیان کھینچا تانی کا معاملہ مزید سنگین اور دوسری طرف واضح بھی ہوتا جارہا ہے۔ ہر دو طرف سے اس امر کی تصدیق ہورہی ہے کہ پاکستانی عسکری اداروں کا کوئی نہ کوئی کردار سیاست میں ہے۔ ظاہر ہے حکومت اس کا اعتراف نہیں کرتی اور فوج بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن جب حکومت کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے اور جب جنرل صاحب کہتے ہیں کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے تو پھر کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ اب وزیراعظم نے ایک الزام عاید کیا کہ اپوزیشن والوں نے فوج سے کہا ہے کہ جنرل باجوہ میری حکومت ختم کردیں۔ اس کے اگلے دن فوج کے ترجمان نے یہ وضاحت کی کہ الزامات تشویش ناک ہیں، کسی سے بیک ڈور رابطے نہیں ہیں۔ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پی ڈی ایم والے پنڈی آئے تو چائے پانی پلائیں گے۔ انتخابی عمل میں فوج کے آنے پر کسی کو اعتراض ہے تو الیکشن کمیشن سے رجوع کرے۔ وہ غالباً مولانا فضل الرحمن کے اس اعلان کا جواب دے رہے تھے کہ غیر اعلانیہ مارشل لا ہے قوم اب اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کا رُخ کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن کا بیان بھی معنی خیز اور قابل توجہ ہے کہ فوج قابل احترام ہے اور ریاست کے لیے ناگزیر ہے لیکن اسے وضاحت کرنا ہوگی کہ وہ غیر جانبدار ہے۔ اگر وہ عمران خان کے حق میں فریق ہے تو پنڈی جا کر احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ان باتوں کا جواب پاک فوج کے ترجمان نے یہ دیا کہ حکومت اچھی طرح ہمارا دفاع کررہی ہے۔ گویا حکومت اور فوج میں تال میل یا سیاسی تعلق کی تصدیق ہے۔ وزیراعظم کو تویہ کرنا چاہیے کہ جو لوگ فوج سے کہہ رہے ہیںکہ حکومت کا تختہ الٹ دو، ان کے نام سامنے لے آئیں۔ فوج کا دفاع یہ تو نہیں کہ وہ فوج کو اپنے ساتھ ظاہر کریں۔ ان کے غلط فیصلوں کی فوج کیوں ذمے دار ہوگی۔ فوجی ترجمان، مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم عمران خان کے بیانات کو یکجا کریں تو اب کچھ بھی بیک ڈور نہیں ہے، صرف نام لینے کی ضرورت ہے۔ ایک بہت عمدہ تصویر بھی اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کے درمیان وزیراعظم بیٹھے ہیں۔ یہ ایک ملاقات ہے اور کبھی ایسی ملاقاتوں میں ہونے والی باتیں پیش نہیں کی جاتیں یا سامنے نہیں آتیں، لیکن یہ ملاقات اسی روز ہوئی ہے جس روز مولانا فضل الرحمن اور فوجی ترجمان کے بیانات شائع ہوئے۔ یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے اور اس کا تعلق ان بیانات سے بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ محض اتفاق نہیں اس کے بیک پر کچھ نہ کچھ ہے۔ لیکن اب وزیراعظم عمران خان پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ان لوگوں کے نام سامنے لے آئیں جو جنرل باجوہ سے ان کی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ بھی بتائیں کہ یہ مطالبہ کیسے کیا گیا۔ بیک ڈور سے یا براہِ راست یا کہیں ملاقات کرکے… یا پھر وہ اور پاک فوج تردید کریں کہ ہم سے کسی نے مطالبہ نہیں کیا۔ ترجمان کی جانب سے یہ جملہ عجیب سا لگتا ہے کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ معاملہ یہ ہے کہ فوج بہرحال ایک معزز ادارہ ہے، پارلیمنٹ اور سیاست بھی اسی طرح معزز ہے۔ جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ مطالبات، بیانات اور پریس کانفرنسوں سے حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کا حل سنجیدگی سے اس خرابی کی اصلاح کا ارادہ کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ فوج سیاست میں ملوث نہیں ہوتی بالکل ہی غلط ہوگا، یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ساری غلطیاں حکومت ہی کررہی ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کے مطالبات اور حکومت کی ہٹ دھرمی سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہورہا ہے۔ یہ فیصلہ تو سیاستدانوں کو کرنا ہے کہ مستقبل کے انتخابات کسی مداخلت سے آزاد کیونکر ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار کیسے ہوسکتا ہے۔ ابھی تو شفاف انتخابات کی اصطلاح کا مطالبہ سیاستدانوں اور فوج سب کو سمجھنا ہوگا۔ کسی کی نظر میں شفاف انتخابات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے صاف نظر آرہا ہو کہ کون حکمران بنے گا اور کسی کی نظر میں اس کی پارٹی کی کامیابی کا مطلب ہی شفاف انتخابات ہے۔ لیکن ظاہر ہے حقیقت یہ تو نہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو آزاد کرو، فوج کی مداخلت بند کرو۔ لیکن جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو باندھ کر رکھنے کی تدابیر کرتے ہیں۔ فوج سے مدد مانگتے ہیں اور پھر بہت سی باتیں ماننا پڑتی ہیں۔ یہ باتیں محض کتابی ہیں کہ تمام ادارے پارلیمنٹ اور حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ الیکشن کے عمل میں تحفظ کے لیے فوج کا آنا تو کسی کو گراں نہیں گزرتا لیکن الیکشن کے عمل کے دوران پولنگ بوتھ میں، رزلٹ کی تیاری کے وقت ریٹرننگ افسر کے ساتھ اور رزلٹ ٹرانسفر سسٹم پر کنٹرول جیسے الزامات بھی تو محض ہوائی الزامات نہیں۔ کے پی کے میں باقاعدہ مداخلت کے الزامات بھی تھے۔ اب بھی یہ بحث بتارہی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہے اور وہ اب بیک ڈور پر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیک یا فرنٹ ڈور پر کون ہے۔ کیا عمران خان الیکشن کمیشن کو اتنا آزاد کرسکتے ہیں کہ وہ آنے والے کسی بھی انتخاب میں حکمران پارٹی کے کسی بھی امیدوار کو بے ضابطگی پر نااہل قرار دے سکے۔ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ عمران خان نے اپنی پارٹی میں الیکشن کا وعدہ کیا اور اسے پورا کیا لیکن انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا بلکہ الیکشن کمشنر ہی کو فارغ کردیا۔ پھر ان سے یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ وہ انتخابی نظام کو طاقتور لوگوں اور اداروں کے اثر سے آزاد کرنے میں مدد دیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جو روایت ہے وہی دہرائی جائے گی۔ جس کا بیک ڈور فرنٹ ڈور یا کسی قسم کا رابطہ مضبوط ہوگیا وہی سہاگن کہلائے گا۔