نسل نو سے مایوسی نہیں

220

علامہ اقبالؒ جیسا عظیم شاعر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک روحانی رہنما بھی تھے۔ اُن پر قرآن کی حقیقت پوری طرح آشکار ہوچکی تھی۔ وہ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی چیز دوبارہ عروج پر پہنچا سکتی ہے تو وہ قرآن ہے، اگر مسلمان قرآن کے پیغام کو صحیح طور پر سمجھیں تو وہ جس ذلت و پستی سے دوچار ہیں دوبارہ اوجِ ثریا پر پہنچ سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 1930ء ہی میں ایک الگ وطن کی بشارت دے دی تھی۔ اُس وقت تک ایک الگ ملک کا تصور بھی مسلمانوں کے اندر نہیں تھا، اس لیے انہیں ایک روحانی رہنما بھی سمجھا جاتا ہے۔ اقبال کا طرزِ فکر ایک سچے مومن مسلمان کا تھا اور وہ اپنی قوم کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے اُن کی شاعری نوجوانوں میں دینی تحریک پیدا کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس عظیم شاعر اور مفکر کی سوچ سے قوم وہ فائدہ نہ اُٹھا سکی جو اُس شاعر کا حق بنتا تھا، اگر اتنا بڑا انقلابی شاعر کسی مغربی ملک میں پیدا ہوتا تو نجانے کتنے بڑے انقلاب کی بنیاد بنتا، مگر یہ اُمت مسلمہ کا المیہ ہے کہ وہ اس عظیم شاعر کی انقلابی شاعری سے مستفید ہوتے ہوئے اسلامی انقلاب بپا نہ کرسکی۔ جب کہ اقبال اپنی نوجوان نسل سے مایوس نہیں تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر نوجوان بیدار ہوجائے اور اُس کے اندر ایمانی قوت پیدا ہوجائے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ بقول اقبالؔ
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آج ہم بھی اپنی نئی نسل سے مایوس نہیں ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آج کی نوجوان نسل میں دینی حمیت اور خودی جاگ اُٹھے تو یہ آج کے نوجوان کو بڑے سے بڑے طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ دے گی اور کامیابی سے ہمکنار کرے گی۔
تو راز کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
سعدیہ جنید