اب کوئی برائی بھی برائی نہیں رہی

756

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے لوگ معاشرے کی اخلاقیات کو بہت نیچے تک لے گئے ہیں۔ عمران خان کے بقول ان سے کہا گیا کہ خواجہ آصف نے صرف 22 کروڑ کی کرپشن کی ہے۔ یہ بھی کوئی جرم ہے انہیں کیوں اندر ڈال دیا گیا۔ عمران خان کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ ان کا یہ خیال بھی درست ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے لوگوں نے معاشرے کی اخلاقیات کو بہت پست کردیا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ چند افراد سے متعلق نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب معاشرے میں کسی برائی کو بھی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ جھوٹ ایک بہت بڑا گناہ ہے مگر معاشرے میں کروڑوں لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے اندر اس حوالے سے کوئی احساسِ جرم بھی نہیں پایا جاتا۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو پابندی سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی بولتے ہیں، ملاوٹ بھی کرتے ہیں، دھوکا بھی دیتے ہیں، حالاں کہ نماز کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ نماز انسان کو برائیوں سے روکتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ کسی مسلمان کی غیبت کرنا ایسا ہے گویا آپ نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا مگر ہمارے معاشرے میں غیبت عام ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ چلتی پھرتی غیبت کانفرنس بنا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سود لینا اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کرنے کے برابر ہے مگر عام افراد کیا ہمارے حکمران تک سود کو بُرا خیال نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سودی نظام عرصے سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں ملک کی اعلیٰ عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تو ریاست فیصلے پر نظرثانی کرانے کے لیے عدالت جا پہنچی۔ رسول اکرمؐ نے ایک حدیث شریف میں برائی کے ساتھ مومن کے تعلق اور ایمان کے تین درجے متعین کیے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے روک دو۔ یہ ممکن نہ ہو تو برائی کو زبان سے برا کہو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو برائی کو دل میں برا خیال کرو۔ ہمارے معاشرے میں برائی کو ہاتھ سے روکنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومتوں اور ریاست کا کام ہے کہ وہ برائی کو طاقت سے روکیں مگر ہماری حکومتیں اور ریاست تک برائی کو طاقت سے نہیں روک رہیں۔ بلکہ درحقیقت وہ برائی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ معاشرے میں برائی کو برا کہنے والوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر ہمارے ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ زبان اور بیان کی سطح پر برائی کی مزاحمت کریں۔ مگر پاکستان میں کتنے اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلز ایسے ہیں جو برائی کے خلاف زبان سے جہاد کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تو معاشرے میں ایسے لوگ بھی کم ہی رہ گئے ہیں جو برائی کو دل سے برا خیال کرتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو معاشرے میں اب برائی کو برا ہی خیال نہیں کیا جاتا بلکہ جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ اب معاشرے میں برائی کے لیے جواز جوئی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں بھلا جھوٹ کے بغیر بھی زندگی بسر ہوسکتی ہے۔ عمران نے اس سلسلے میں خواجہ آصف کی اچھی مثال دی کہ بھلا 22 کروڑ کی بدعنوانی بھی کوئی بدعنوانی ہے۔ ہزاروں کی کرپشن کرنے والے سمجھتے ہیں کہ دراصل کرپٹ تو وہ لوگ ہیں جو لاکھوں کی کرپشن کررہے ہیں۔ لاکھوں کی کرپشن کرنے والے سمجھتے ہیں کہ دراصل کرپٹ تو وہ لوگ ہیں جو کروڑوں کی کرپشن کررہے ہیں۔ اور کروڑوں کی بدعنوانی کرنے والوں کا خیال ہے کہ دراصل کرپٹ تو وہ لوگ ہیں جو اربوں کھربوں کی لوٹ مار کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری واقعتاً علامتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور زمانہ بات ہے کہ وہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یاروں کا یار ہے۔ عربی کی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے معاشرے کے اعلیٰ طبقات خرابیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عوام ان کو دیکھ کر خرابی کو اختیار کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز اور آصف علی زرداری نے عوام میں کرپشن کا ’’ذوق و شوق‘‘ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن عمران خان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی۔ یوٹرن لینا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے۔ اس لیے کہ یوٹرن جھوٹ کا دوسرا نام ہے، وعدہ خلافی بھی ایک بڑی برائی ہے۔ عمران خان ایک زمانے میں کہا کرتے تھے کہ وہ خودکشی کرلیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ مگر وہ نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ اب وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کیوں کی؟ یہ وعدہ خلافی ہے اور یہ بھی ایک برائی ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان خود بھی برائی کو برائی خیال نہیں کرتے۔