جیو اکنامک ریاست کا خواب

629

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے قومی سلامتی ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب پاکستان کو جیو اسٹرٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ریاست بنائیں گے۔ دنیا کو معاشی شراکت داری اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کریں گے جس سے پاکستان عالمی اقتصادی مرکز بنے گا۔ ڈاکٹر معید یوسف کا یہ کہنا بدلتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی ریاست نہ صرف اپنے عوام کی فلاح وبہبود کا تصور اپنائے اور لوگوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرے۔ جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامک کی جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں پاکستان کے حوالے سے ان کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کا سارا نظام ڈیفنس اورینٹڈ ہو کر رہ گیا۔ اس کی وجوہات بہت گہری ہیں۔ جن کو قیام پاکستان کے ارد گرد ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بانیان پاکستان کے ذہن میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو نقشہ تھا وہ امریکا اور کینیڈا جیسا تھا جس کا اظہار بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کیا تھا۔ دونوں طرف انسانوں کا قتل عام اور آبادی کا انخلا اور کشمیر کے حالات اور جنگ نے اس ان ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اور بھارت دائمی اور مستقل مخاصمت اور آویزش کا شکار ہو کر رہ گئے۔ دونوں ملکوں نے آزادی کا پہلا سانس ہی کشمکش کی فضاء میں لیا اور اس کے بعد یہ مستقل آویزیش کی راہوں پر دوڑتے چلے گئے۔ بھارت نے پاکستان کو ٹکڑوں میں کاٹنے اور اس کو زخم زخم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ بھارت کی اس دشمنی نے پاکستان کو مستقل طور پر عدم تحفظ کا شکار کیے رکھا اور پاکستان کو اپنے وسائل کا بڑا حصہ ریاست کو محفوظ بنانے کے لیے صرف کرنا پڑا۔ اس حکمت عملی کے ساتھ پاکستان معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ نے پوری کر دی۔ یہ عالمی طاقتوں کی خطے میں وسائل اور بالادستی کی جنگ تھی جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان اس جنگ کی زد میں آگیا اور اس جنگ کو لڑتے ہوئے معاشی طور پر تباہ حال ہوا۔ اس کے ادارے کمزور ہو گئے۔ سیاحت اور صنعت جواب دے گئی اور اس کا بین الاقوامی امیج بھی منفی ہو کر رہ گیا۔ اب بھی حالات پوری طرح بدلے نہیں۔ بھارت آمادہ فساد ہے اور بھارت کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے مغربی ملکوں کی تائیدو اعانت حاصل ہے۔ اس کے باجود پاکستان میں اب تصور ریاست کو جیو اسٹرٹیجک سے بدل کرجیو اکنامک کرنے کی سوچ موجود ہے۔
پاکستان کے گرد وپیش میں پراکسی جنگیں چل رہی ہیں۔ بھارت کے اپنے طویل المیعاد عزائم ہیں۔ بھارت کا سیکولر ازم تو پہلے ہی دکھاوا تھا اب اس میں بدترین نسل پرست ذہنیت کا اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان بدامنی کی صلیب پر لٹکا ہوا ہے۔ یہاں کئی عالمی ایجنسیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ایران بھی عالمی دبائو کا شکار ہے اور اس کے اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان اپنے ارد گرد باڑ لگا کر دہشت گردی سے محفوظ رہنے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ دہشت گردی کے سمندر میں امن کا جزیزہ بن کر رہنا آسان کام نہیں۔ پاکستان اپنی ضرورت کے تحت افغانستان میں قیام امن کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے تاکہ اس ملک میں ایک منظم حکومت کی رٹ قائم ہو جو حالات کی ذمے داری قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ خطے میں امن کا ماحول ہوگا تو اس کے نتیجے میں اقتصادی اور سیاحتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔ یوں عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولتیں حاصل ہوں گی۔ بیرونی خطرات کم ہوں گے تو دفاعی اخراجات اور جیو اسٹرٹیجک ریاست کا تصور ازخود جیو اکنامک تصور ہی نہیں بلکہ عملی شکل میں ڈھلتا چلا جائے گا۔
ریاست اور افراد کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست عوام کے حقوق کی پاسبان اور ضامن ہوتی ہے۔ ریاست کے اس حق کے عوض عوام کو اپنے حصے کے فرائض ادا کرنا ہوتے ہیں جن میں پہلا فرض قانون کا احترام ہوتا ہے۔ قانون کا احترام حقیقت میں ریاست کی رٹ اور طاقت کا احترام ہوتا ہے۔ اس کے بعد ریاست وقتاً فوقتاً اپنے شہریوں سے جو قربانی طلب کرتی ہے عوام پر لبیک کہنا لازم ہوتا ہے۔ ایک بانجھ ریاست جو عوام کو کوئی سہولت نہ دے عوام کو دور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ آج پاکستان میں بہت سی مشکلات کا تعلق اسی بات ہے کہ ریاست نان فنکشنل ہو کر رہ گئی ہے اور عوام کے ساتھ اس کا تعلق کمزور پڑگیا ہے۔ اس کا سسٹم اور پولیس کی طرح کے اہم ترین ادارے دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ انہیں ایک گاڑی روکنے اور انسانی جانوں کو کامیابی سے بچانے کا فن بھی نہیں آتا۔ ایک کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہو رہا ہے جس میں پولیس معصوم لوگوں کو گاڑی روکنے کی کوشش میں زندگی کی قید سے ہی آزاد کر دیتی ہے۔ مہارت اور صلاحیت کا یہی عالم ہر ادارے میں ہے۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں جہاں ریاست اور عوام کے درمیان خلیج گہری ہوتی ہے۔ عوام خود کو زمینی اور حکمران کلاس اور ریاست چلانے والی اشرافیہ کو کسی اور ہی سیارے کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ اس خلا کو غیر ملکی طاقتیں آسانی سے پُر کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔