امریکی جمہوریت اور شکوک و شبہات کا گرداب – مسعود ابدالی

807

ہم جیسے کم علم خامہ بگوش، جن کی ساری ”قابلیت“ بلکہ لن ترانی حالاتِ حاضرہ تک محدود ہے، ہفتہ وار کالم لکھتے ہوئے کئی بار مشکل اور آزمائش میں مبتلا ہوجاتےہیں کہ کہیں تجزیہ نگاری کا سارا بھرم ہی نہ کھل جائے۔ راہِ سیاست میں کئی بار ایسے مرحلے آتے ہیں جب یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یا تیزی سے بدلتے زمینی حقائق کی بنا پر ساربان اسے بٹھانے کے بجائے ہنکاکر آگے لے جانے کو ترجیح دے گا۔ کچھ ایسا ہی مرحلہ اس وقت درپیش ہے کہ یہ کالم متوقع تاریخِ اشاعت یعنی 8 جنوری سے 6 دن پہلے تحریر کیاجارہا ہے، اور اس میں دیے گئے تجزیے کی بنیاد ان دو عوامل پر ہے جن کا ظہور 5 اور 6 جنوری کو ہونا ہے۔

آج کی نشست میں امریکی صدارتی انتخابات پر گفتگو ہوگی۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات اس قدر پیچ در پیچ ہیں کہ اب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں اور ”توقع“ ہے کہ جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی، امریکی صدارتی انتخاب کے سرکاری نتائج کا اعلان ہوچکا ہوگا۔ قوسین میں توقع لکھ کر احتیاط کے اس حصار کی وجہ اس کالم کا کلیدی نکتہ ہے۔

ہم کئی بار امریکی صدارتی انتخاب کے طریقے، انتخابی کالج کی ہیئت اور اس کے نصاب پر گفتگو کرچکے ہیں، تاہم اُن قارئین کے لیے چند سطور، جو اس نظام سے واقف نہیں۔

امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے، اور صدر کا چنائو ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeسے ہوتا ہے۔ کلیہ انتخاب میں وفاق کی تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کو ان کی ابادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے۔ ہر ریاست سے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے لیے جتنے رکن منتخب کیے جاتے ہیں الیکٹورل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ پاکستان کی طرح ایوانِ نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں، جبکہ سینیٹ میں ہر ریاست کے لیے دو دو نشستیں مختص ہیں۔ انتخابی کالج میں دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کو بھی 3 نشستیں عطا کی گئی ہیں۔ اس طرح ایوانِ نمائندگان کی 435، سینیٹ کی 100 اور دارالحکومت کی 3نشستیں ملا کر انتخابی کالج کے ووٹوں کی تعداد کُل 538 ہے۔ کامیابی کے لیے نصف سے زیادہ یعنی انتخابی کالج کے کم ازکم 270 ووٹ درکار ہیں۔

سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کے لیے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اُس وقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کردیے جاتے ہیں جنھیں Electorsکہا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران ریاست میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کے الیکٹرز انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکساس کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 38ہے۔ عام انتخابات میں صدر ٹرمپ نے یہ میدان مارلیا ہے، چنانچہ ان کے تمام کے تمام38نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرز ہیں۔

صدارتی انتخابات عملاً تین مرحلوں میں مکمل ہوتے ہیں:

٭ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو عام انتخابات ہوتے ہیں۔ اگر نومبر کا پہلا دن منگل ہو تو انتخابات دوسرے منگل کو ہوں گے۔ 2016ء میں یکم نومبر منگل تھا، اس لیے ووٹنگ 8 نومبر کو ہوئی۔

٭دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد آنے والے پیر کو ریاستی دارالحکومتوں میں انتخابی کالج کا اجلاس ہوتا ہے جس میں نامزد الیکٹرز صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ووٹنگ کے بعد سیکریٹری آف اسٹیٹ تصدیق شدہ نتیجہ سینیٹ کے سربراہ (نائب صدر)کو بھیج دیتے ہیں۔

٭ اگلے سال کی 6 جنوری کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس نائب صدر کی سرابرہی میں منعقد ہوتا ہے، جہاں انتخابی کالج کے ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے۔ نائب صدر بربنائے عہدہ امریکی سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔

اس تفصیلی پس منظر کے بعد آمدم برسرِ مطلب۔

سرکاری گنتی کے دوران ارکانِ کانگریس کے سامنے ایک ایک ریاست کے مصدقہ نتائج پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ نائب صدر بآوازِ بلند Acceptedکہہ کر انھیں سند عطا کرتے ہیں، اور دارالحکومت اور تمام پچاس ریاستوں کے نتائج کو جوڑ کر کامیاب ہونے والے امیدوار کا اعلان کردیا جاتاہے۔

روایت کے مطابق کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی ووٹوں کی گنتی ایک رسمی کارروائی ہے اور یہ مرحلہ تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے، لیکن ارکانِ کانگریس کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔ عام طور سے اعتراضات بہت معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور زیادہ تر کا تعلق اُن ووٹوں سے ہوتا ہے جو اس ریاست سے جیتے ہوئے امیدوار کے علاوہ کسی اور کو دیے گئے ہوں۔ یعنی اگر کسی الیکٹر نے بے وفائی کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کے حق میں رائے دی ہے تو اس ووٹ کو حذف کردینے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ بے وفائی کرنے والے الیکٹرز کو faithless کہا جاتا ہے۔ ایسے الیکٹرز کی تعداد دو چار سے زیادہ نہیں ہوتی، لہٰذا نتائج پر فرق نہیں پڑتا۔ وعدہ خلافی کے اعتبار سے 2016ء کا صدارتی انتخاب بدترین چنائو تھا جب ہلیری کلنٹن کے 8 اور ڈونلڈ ٹرمپ کے 2 الیکٹرز نے بے وفائی کا مظاہرہ کیا۔ اس پر شور شرابا تو ہوا لیکن نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑا، چنانچہ رائے شماری کی نوبت ہی نہیں آئی۔

6 جنوری کے لیے ری پبلکن پارٹی کے ارادے مشکوک نظر آرہے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان کے 144 ارکان اور ایک درجن سے زیادہ سینیٹرز نے اجلاس کے دوران پنسلوانیا، جارجیا، وسکونسن، مشی گن اور ایری زونا ریاستوں کے انتخابات کو کالعدم کرنے کی تحریک پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پارلیمانی حجم کے اعتبار سے مشترکہ اجلاس میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی کُل تعداد 262 ہے، جبکہ 270 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہوں گے۔ سینیٹ کے قائدِ ایوان سمیت بہت سے ری پبلکن ارکان نے انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتوں سے صدر ٹرمپ کی دو درجن سے زیادہ انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت پر خارج ہوچکی ہیں، یعنی عدالت نے ان درخواستوں کو سماعت کے لیے بھی منظور نہیں کیا۔ جارجیا میں ووٹوں کی گنتی تین بار اور مشی گن میں دوبار ہوچکی ہے لیکن نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، بلکہ جوبائیڈن کے ووٹوں میں چندسو کا اضافہ ہوگیا۔

قدامت پسندوں کی سرخیل اور ری پبلکن کانفرنس (پارلیمانی پارٹی) کی قائد محترمہ لزچینی کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا اور کانگریس میں تماشا کھڑا کرکے جمہوریت کو داغ دار بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سینیٹ کے قائدِ ایوان مچ مک کونل کا بھی یہی خیال ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ اور ان کے قدامت پسند حامی مزاحمت کے لیے پُرعزم ہیں۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے جارجیا کے گورنر برائن کیمپ سے ایک گھنٹہ گفتگو کی۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جارجیا میں گنتی کے دوران ان کے 11780 ووٹ غائب کردیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات کہ عام انتخابات میں جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر 11779 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ ریاست کے سیکریٹری آف اسٹیٹ بریڈ رافینس پرگر (Brad Raffensperger) کا کہنا ہے کہ انھوں نے تیسری گنتی کی بذاتِ خود نگرانی کی ہے اور ہر ووٹ بالکل ٹھیک گنا گیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب رافنس پرگر نے کہا کہ ووٹ غائب ہونے یا جعلی بیلٹ جاری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور ان کے لیے نتائج کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جس پر صدر ٹرمپ نے مشتعل ہوکر کہا کہ اگر سیکریٹری آف اسٹیٹ نااہل ہے تو اسے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ اگر جارجیا کے نتائج تبدیل ہوجائیں تب بھی جوبائیڈن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، کہ جارجیا کے انتخابی ووٹوں کی تعداد 16 ہے۔ انھیں نکال دینے کے بعد بھی بائیڈن کے انتخابی ووٹ 270 کے نشان سے آگے رہیں گے۔

انتخابی ووٹوں کی گنتی کے دوران قدامت پسند، کانگریس کے گھیرائو کا پروگرام بنارہے ہیں جس کے لیے سارے امریکہ سے قافلے پیر کو روانہ ہوں گے۔ اس مظاہرے کا مقصد ری پبلکن ارکانِ کانگریس پر پانچ ریاستوں کے انتخاب کو کالعدم کرنے کے لیے دبائو ڈالنا ہے۔

تاہم تمام کی تمام ریاستوں نے انتخابات کی تصدیق کردی ہے، لہٰذا ان نتائج کو مسترد یا تحلیل کرنا ممکن نہیں، اور پھر ضابطے کے تحت ہر اعتراض کا فیصلہ ایوان میں رائے شماری سے ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے اور اس معاملے پر ری پبلکن پارٹی یکسو بھی نہیں۔

کہا جارہا ہے کہ اعتراض پر فوری رائے شماری کے بجائے سینیٹ کے چیئرمین بحث مباحثے کی اجازت دے دیں گے، اور اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو اجلاس غیر معینہ مدت تک طویل ہوسکتا ہے۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ یہ چونکہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہے، اس لیے نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی صدارت فرما رہی ہوں گی جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اس کے علاوہ بیلٹ پیپر پر چونکہ مائیک پینس کا نام بطور امیدوار موجود ہے، اس لیے غیر جانب داری کے نام پر ڈیموکریٹک پارٹی گنتی کے عمل سے انھیں الگ رکھنے کی تحریک پیش کرسکتی ہے، اور اس سلسلے میں ایک نظیر بھی موجود ہے۔ 1968ء کے صدارتی انتخابات میں نائب صدر ہیوبرٹ ہیمپفرے (Hubert Humphrey) صدر نکسن سے شکست کھا گئے تھے، چنانچہ انھوں نے اجلاس کی صدارت سے معذرت کرلی تھی، لیکن دوسری طرف 2000ء کے انتخابات میں صدر بش سے ہار جانے کے باوجود نائب صدر ایلگور نے نہ صرف اجلاس کی صدارت کی بلکہ انتخابی نتائج کا اعلان بھی کیا۔

انتخابات کالعدم کرانے میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن اب جبکہ صدر کی شکست نوشتہ دیوار ہے، ری پبلکن پارٹی کے کچھ سینیٹرز اتنے پُرجوش کیوں ہیں؟ تو اس کا آسان جواب ہے کہ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گررہا ہے۔ صدرٹرمپ انتخاب تو ہار گئے لیکن جارحانہ انتخابی مہم کے نتیجے میں انھوں نے سارے ملک کے قدامت پسندوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ Make America Great Againیا MAGA تحریک کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم ہوگئی ہے۔ مہم کے دوران انھوں نے دیہی امریکہ میں بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کرکے ان نوجوانوں کو متحرک کردیا۔ ری پبلکن پارٹی کا روایتی حلقہ اور مقتدرہ MAGA سے خوف زدہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ MAGA اب ری پبلکن پارٹی سے زیادہ مضبوط، منظم اور انتہائی پُرجوش تنظیم بن چکی ہے۔ سرگرم سینیٹرز کی اکثریت 2024ء کے صدارتی انتخاب میں قسمت آزمائی کرنا چاہتی ہے۔ وہ خود کو ٹرمپ کا مخلص اور نرم و گرم میں ان کا وفادار ثابت کرکے MAGAکی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ 2024ء میں دوبارہ انتخاب لڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی بنا پر وہ شکست تسلیم کرکے میدان سے باہر نہیں جانا چاہتے۔ امریکی صدر اپنے حامیوں کو تاثر دے رہے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے، اور اس حق کو چار سال بعد ہر قیمت پر واپس لینا ہے۔ اپنے خطابات میں وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ اس ڈکیتی کے خلاف وہ پوری قوم کو متحد کریں گے اور 2024ء سے دو سال پہلے 2022ء کے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس پر برتری حاصل کرکے دھاندلی روکنے کے لیے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرائیں گے۔

اس سلسلے میں ان کی پوری توجہ ریاست جارجیا پر ہے جہاں 5 جون کو سینیٹ کی دو نشستوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں کسی بھی امیدوار نے 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کیے، اس لیے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہورہا ہے، جسے RUN-OFFکہا جاتا ہے۔ یہ دونوں نشستیں 2012ء سے ری پبلکن پارٹی کے پاس ہیں۔

اس وقت 100رکنی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے پاس 50 نشستیں ہیں، 46 نشستیں ڈیموکریٹس اور 2 نشستیں برنی سینڈرز سمیت آزاد نمائندوں کے پاس ہیں جنھوں نے خود کو ڈیموکریٹس پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ جارجیا میں ہونے والا انتخاب نئی امریکی سینیٹ کے خدوخال واضح کردے گا۔ ڈیموکریٹس کے لیے یہ دونوں نشستیں جیتنا ضروری ہے تاکہ مقابلہ 50-50سے برابر ہوجائے اور رائے شماری کے دوران فیصلہ کن ووٹ ٖڈال کر نائب صدر پانسہ حکمراں پارٹی کے حق میں کردیں۔ ری پبلکن پارٹی اگر ایک نشست بھی جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو مستقبل کی بائیڈن انتظامیہ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل سمیت تمام وفاقی وزرا، جج، اقوام متحدہ اور مختلف ملکوں کے سفیر، فوجی سربراہ، خفیہ اداروں کے چیف اور بااختیار سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں کا تقرر سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ مالیاتی بل، میزانیہ اور قانون سازی کے لیے بھی دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہے۔ اگر سینیٹ پر ری پبلکن کو برتری حاصل ہوگئی تو نئی قیادت پالیسی اور قانون سازی کے لیے ری پبلکن پارٹی کے رحم و کرم پر ہوگی۔

صدر ٹرمپ اسی لیے جارجیا میں اپنے امیدواروں کی مہم خود چلا رہے ہیں۔ اگر وہ اپنے ایک امیدوار کو بھی جتوانے میں کامیاب ہوگئے تو 2022ء میں ایوانِ نمائندگان کو ہدف بنائیں گے، جہاں حالیہ انتخابات کے بعد ڈیموکریٹس کی برتری خاصی سکڑ گئی ہے۔ 435 رکنی ایوان میں اکثریت کے لیے 218 نشستیں درکار ہیں اور بائیڈن کی جماعت کے پاس 222 نشستیں ہیں۔ اگر سینیٹ پر برتری برقرار رکھتے ہوئے وسط مدتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی ڈیموکریٹس سے ایوانِ نمائندگان کی 4 نشستیں چھین لینے میں کامیاب ہوجائے تو صدر بائیڈن کے آخری دو سال بہت سخت ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں عام طور سے وسط مدتی انتخابات حکمراں جماعت کے لیے بہت بھاری ہوتے ہیں۔

چنانچہ 5 جنوری کو جارجیا میں سینیٹ کے انتخابات اور اس کے دوسرے روز واشنگٹن میں انتخابی ووٹوں کی گنتی پر سیاسی پنڈت نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ یہ دو عوامل امریکہ کے سیاسی منظرنامے پر دوررس اثرات مرتب کریں گے۔ اس وقت جب آپ ہماری تحریر کو شرفِ نگاہ عطا فرما رہے ہیں، اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات، خدشات اور مضمرات پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی نشست میں۔