پاکستان میں بچوں کا قومی دن – راؤ توفیق احمد

392

شہید حکیم محمد سعید ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو اہمیت کا حامل ہے اور کسی ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم ایک سوشل ریفارمر کی حیثیت سے ان کا کردار اس اعتبار سے اہم ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے جب ہمارا قومی مورال گرچکا تھا اور ہم انتشار و افتراق کا شکار ہو کر اپنی راہ سے بھٹک چکے تھے تو اس وقت ہمیں ایک ایسے سماجی مصلح کی ضرورت تھی جو ہمیں وہ راہ دکھا سکے جس کا تعین علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ حکیم محمد سعید اس قومی ضرورت کی تکمیل کر رہے تھے۔ وہ ہر قسم کے مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب سے پاک ایک مثالی پاکستانی تھے۔ وہ سماجی مصلح کے معیار پر پورے اترتے تھے اور خاموشی سے ذہنوں کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف تھے جو ایک مصلح کرتا ہے۔

سماجی تبدیلیاں ذہنوں کو بدلنے سے آتی ہیں۔ وہ چیخنے چلانے، شوروغوغا کرنے، جلسے جلوس کرنے، مظاہرے کرنے یا پارٹیاں بنانے سے نہیں آتیں بلکہ مائنڈ سیٹ بدلنے، بیداری پیدا کرنے اور صالح خیالات کو ذہن نشین کرنے سے وجود پاتی ہیں۔ ان کو قانون کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا، اگر کر بھی دیا جائے تو دیرپا نہیں بنایا جا سکتا۔

شہید حکیم محمد سعید کی بصیرت اور بیدار ذہن اس نکتے کو سمجھتا تھا۔ انہوں نے خودنمائی سے خود کو دور رکھا اور خاموشی سے قوم کے ذہن کو بدلنے اور اس میں مثبت سوچ بھرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو اقدامات کیے۔ تحریک آواز اخلاق شروع کی اور شام ہمدرد کا آغاز کیا۔ تحریک آواز اخلاق کے تحت وہ مضامین اور آرٹیکلز سپرد قلم کرتے تھے جو قومی اخبارات، جرائد اور سائل کی زینت بنتے تھے جبکہ ’’شام ہمدرد‘‘ کے تحت وہ ملک کے دانشوروں کے فکرانگیز خیالات کو ابلاغ دیتے تھے۔ ان تمام قربانیوں، قلمی اور ذہنی کاوشوں سے ان کا مقصد شعور وآگہی کی تخم ریزی، قومی کردار و اخلاق کی تعمیر اور قومی ذہن کو بدلنا تھا۔ ان کا معروف سلوگن ’’پاکستان سے محبت کرو۔ پاکستان کی تعمیر کرو‘‘ یہ ایک ایسی ترغیب ہے جس میں پاکستان کی بقا، سلامتی، ترقی اور عروج کا راز پنہاں ہے۔ اس سلوگن کی انہوں نے کثرت سے گردان کی، ملک کے کونے کونے میں اسے پہنچایا، جگہ جگہ اس کے بورڈ آویزاں کیے۔ اس سلوگن کی تکرار وہ مسلسل کرتے اور کراتے رہے تاکہ یہ قوم کے ذہن نشین ہو جائے اور اس کی اثرپذیری بڑھ جائے۔ کسی لفظ اور جملے کی گردان اس کی اثر آفرینی کو بڑھا دیتی ہے۔ یہ نکتہ وظائف کی اثرانگیزی میں پوشیدہ ہے۔ وہ اس نکتے کو سمجھتے تھے۔ وہ اگر صرف یہی ایک سلوگن وضع کرتے تو بھی وہ مصلح قوم کہنے کے مستحق قرار پاتے۔

شہید حکیم محمد سعید نے شام ہمدرد کے تحت قوم کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے علم و دانش کے سوتے پھوٹے اور قومی ذہن کی آبیاری ہوئی اور قوم کو شعور و آگہی کی ذہنی غذا مہیا کی گئی۔ بعد ازاں جنوری 1995 ء میں انہوں نے شام ہمدرد کو شوریٰ ہمدرد میں بدل دیا اور اس میں قوم کے بہترین دماغوں کو جمع کر کے انہیں عوام اور حکومت کی رہنمائی کے فریضہ کی ادائیگی پر لگا دیا۔ اس وقت سے تاحال شوریٰ ہمدرد اپنا یہ فریضہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بخوبی ادا کر رہی ہے۔ اکثر معاملات میں حکومت نے شوریٰ ہمدرد کی تجاویز اور سفارشات سے استفادہ کیا ہے اور عوام نے رہنمائی حاصل کی ہے۔

شہید حکیم محمد سعید دن میں ایک ناشتہ او رایک کھانے پر زور دیتے تھے۔ تاہم بچوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔ان کے مطابق شادیوں میں بے جا اصراف اور خوراک کا ضائع کیا جانا نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ اسلامی شریعت کے بھی خلاف ہے۔ وہ اس عمل کو وقت اور پیسے کی بربادی سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کی آواز موثر ثابت ہوئی اور وزیراعظم نواز شریف کی پہلی حکومت نے حکیم صاحب کی بات سے متاثر ہو کر شادی کے کھانوں پر پابندی لگا دی تھی۔

محترم حکیم صاحب قائداعظم محمد علی جناح کے قول کام، کام اور کام کو پاکستان کے لیے نسخہ کیمیا سمجھتے تھے، وہ خود بھی بہت کام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی کام میں مصروف دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ کام کو انسانی دکھوں کا مداوا کہتے تھے اور یہ کہ مصروف آدمی بہت سی خرابیوں سے بچا رہتا ہے۔

ملک کا مستقبل سنوارنے کے لیے شہید حکیم محمد سعید نے نونہالان پاکستان کو تھام لیا تھا اور جس نے بچوں کو سنبھال لیا، سمجھ لیجئے کہ اس نے پوری قوم کو سنبھال لیا۔ نونہالوں کی تعلیم و تربیت، ان کی ذہنی نشوونما، انہیں خوداعتمادی کی صفت سے مزین کرنا اور ان میں قائدانہ صلاحیت کا جوہر پیدا کرنا انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ ہر مصلح قوم اصلاح کا کام تعلیم سے شروع کرتا ہے جیسا کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کے لیے اور راجہ رام موہن رائے نے ہندو قوم کے لیے کیا۔ یہی طریقہ شہید حکیم محمد سعید نے اختیار کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے اسکولز کھولے اور اس ضمن میں دیہی بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بچوں کے لیے نونہال بزم ادب، ہمدرد نونہال اسمبلی قائم کی اور رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا۔ بچوں کے لیے بہت سے سفرنامے لکھے۔ شہر علم وحکمت، مدینتہ الحکمہ تعمیر کیا اور اشاعت و فروغ تعلیم کے لیے عملی جدوجہد کی۔ وہ بارہا اپنی تقاریر میں کہتے تھے کہ اس قوم کا مستقبل کیسے سنور سکتا ہے جس کے چار کڑور سے زائد نونہال اسکول نہیں جا رہے ہیں، جس کے 80 لاکھ نونہال گھروں اور کارخانوں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ ان سرمایہ داروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے جو اپنے گھروں اور کارخانوں میں نونہالوں سے کام لیتے ہیں۔ وہ دولت مندوں سے سوال کرتے تھے کہ کیا ان کا کوئی نونہال تعلیم سے محروم ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں ہے تو پھر قوم کے بچے کیوں تعلیم سے محروم ہیں؟ وہ اہل دولت پر زور دیتے تھے کہ وہ نونہالوں کے لیے اسکول کھولیں۔ حکمرانوں کا سب سے بڑا قصور ان کی نظر میں یہی تھا کہ انہوں نے اشاعت اور فروغ تعلیم سے اغماض برتا۔ تعلیم کے دوہرے نظام کو جو آج ہمارے ملک میں رائج ہے وہ اِسے تقسیم ملت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ موجودہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو وہ قوم کی فکری اور تخلیقی قوتوں کے لیے تباہ کن قرار دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تشکیل پاکستان کے فوراً بعد اگر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو قوم کی امنگوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کر دیا جاتا تو آج پاکستان متحد بھی ہوتا اور ترقی یافتہ بھی۔

شہید حکیم محمد سعید نے قوم کے سامنے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو منفرد انداز سے پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن حکیم کا نزول جس پہلی وحی سے ہوا اس کا آغاز لفظ ’’اقرا‘‘ پڑھو سے ہوتا ہے نیز بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد کفر و الحاد کے خاتمے کے علاوہ دنیا میں علم و تعلیم کی روشنی پھیلانا تھا۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے کہ جس دین کا مقصد علم پھیلانا تھا آج اسی دین کے پیروکار علم و تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم دیگر تہذیبوں میں ذوق و شوق کا نام ہوسکتا ہے لیکن اسلام میں یہ فریضہ ہے نیز اسلام نے عورت و مرد پر علم کا حصول فرض قرار دیا ہے کیونکہ تعلیم نسواں کے بغیر متمدن معاشرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا ایک بڑا کارنامہ پاکستانی قوم میں سائنسی سوچ کو فروغ دینا ہے۔ مذہب کی روح سے ناواقف نادان لوگوں نے مذہب اور سائنس میں جو دوری پیدا کر دی تھی اسے انہوں نے نہایت ذہانت اور بصیرت سے دور کرنے کی سعی کی۔ انہوں نے مسلم سائنسدانوں اور ان کے کارناموں کو اجاگر کیا۔ مسلم مفکروں، فلاسفروں اور سائنسدانوں پر عالمی کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ کتابیں تحریر کیں اور کرائیں۔ ان کی معرکہ آرا کتابوں کے تراجم کرائے اور انہیں دوبارہ شائع کرنے کا اہتمام کیا۔

غربت جو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کا حل حکیم صاحب نے یہ نکالا کہ ’’غربت کے خاتمے کے لیے غربت اختیار کی جائے ‘‘ یعنی قناعت پر مبنی انتہائی سادہ زندگی گزاری جائے جس کا عملی نمونہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم امت کے سامنے پیش فرماچکے ہیں۔ قوم کو بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں انتہائی سادہ زندگی گزارنی چاہیے اور قناعت اختیار کرنی چاہیے کہ یہی ہماری غربت اور معاشی مسائل کا حل ہے۔

پاکستان کے اس بطل جلیل نے 9 ۔ جنوری 1920 ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ وہ پاکستان کے لیے جیے اور پاکستان کی خاطر 17 ۔اکتوبر 1998 ء کی صبح شہادت کا جام نوش کیا۔ حکومت پاکستان نے بچوں کے لیے شہید حکیم محمد سعید کی خدمات کے اعتراف میں ان کے یوم پیدائش ، 9 ۔ جنوری کو ’’پاکستان میں بچوں کا قومی دن‘‘ قرار دیا ہے۔