مذہب اور ثقافت کا باہمی رشتہ – شاہنواز فاروقی

1318

مذہب اور کلچر کی تاریخ لازم و ملزوم کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اور کلچر میں وہی تعلق ہے جو سورج اور چاند کے درمیان ہے۔ چاند سورج کی روشنی سے روشن ہے، مذاہبِ عالم کی تاریخ میں کلچر اسی طرح مذہب کی پیداوار اور اس کی روشنی کو منعکس کرنے والی حقیقت رہا ہے۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے اس تعلق کو الٹ دیا ہے۔ جدید مغربی تہذیب چوں کہ خدا اور مذہب کی قائل نہیں، اور اس کی کائنات خدا مرکز کائنات کے بجائے انسان مرکز کائنات ہے اس لیے جدید تہذیب نے اس خیال کو عام کیا ہے کہ مذہب تہذیب اور کلچر کو پیدا نہیں کرتا بلکہ تہذیب اور کلچر مذہب کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح جدید مغربی تہذیب نے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھ دیا اور چاند سے سورج کے روشن ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب اور کلچر لازم و ملزوم کیوں ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کلچر مذہب کے ’’معلوم‘‘ کو ’’محسوس‘‘، ’’مجرد‘‘ کو ’’ٹھوس‘‘، ’’غیب‘‘ کو ’’حضور‘‘ بنانے کا عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کتاب اور نبی کا تعلق ہے۔ کتاب معلوم ہے، نبی کی ذات محسوس ہے… کتاب مجرد ہے‘ نبی کی ذات ٹھوس ہے… کتاب غیب ہے‘ نبی کی ذات حضور ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں معجزے کی روایت ہے‘ معلوم کو محسوس اور عقلی تجربے کو حسی تجربہ بنانے کی دوسری بڑی مثال ہے۔ مذاہب کے دائرے میں معلوم کو محسوس بنانا اس لیے ضروری ہے تاکہ معلوم پست سے پست ذہنی سطح رکھنے والے شخص کی بھی سمجھ میں آسکے اور وہ اس سے گہرا اور بامعنی رشتہ استوار کرسکے۔ مذہب اگر صرف معلوم رہے‘ مجرد رہے اور غیب رہے تو چند لوگوں ہی کی اس تک رسائی ہوگی اور انسانوں کی عظیم اکثریت مذہب کے آبِِ حیات سے محروم رہ جائے گی۔ ادب بالخصوص شاعری کلچر کا سب سے بڑا مظہر ہے، اور بڑے ادب کا وظیفہ ہے کہ وہ ’’قطرے‘‘ میں ’’دریا‘‘ دکھاتا ہے اور ’’معمولی‘‘ کو ’’جمیل‘‘ بنا دیتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں کلچر کا سب سے بڑا مظہر نعت نگاری کی روایت تھی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں پیدا ہوئی اور اس نے حیرت انگیز طور پر فروغ پایا۔ بعدازاں مسلمانوں نے شاعری، داستان اور فنِ تعمیر کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ شاعری بالخصوص غزل کی روایت میں حقیقت اور مجاز یا عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے تصورات سامنے آئے۔ ان تصورات کا باہمی تعلق یہ تھا کہ شاعر مجاز کے آئینے میں حقیقت کا جلوہ دکھاتا تھا۔ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کا زینہ تھا، اور تیسری سطح پر مجاز حقیقت کو ثقافت میں ڈھالنے یا اس کی Culturalization کا عمل تھا۔ مسلمانوں نے داستان کی بے مثال روایت تخلیق کی، اور داستان میں کہانی کی دو سطحیں تھیں۔ ایک سطح پر کہانی انسانوں یا حیوانوں کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کا بیان تھی اور دوسری سطح پر کہانی انسان کے روحانی سفر کی داستان بیان کرتی تھی۔ اس طرح یہاں بھی مجاز حقیقت کے آئینے کا کردار ادا کرتی تھی۔ بعض لوگ لاعلمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے بڑی بڑی عمارتیں بنوانے پر خوامخواہ وسائل ضائع کیے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ مسلمانوں میں تصویرکشی حرام تھی، چنانچہ مسلمانوں نے تصویر کشی سے متعلق بے پناہ تخلیقی توانائی اور شعورِ جمال کو فنِ تعمیر پر صرف کرڈالا، چنانچہ انھوں نے کہیں الحمرا تخلیق کیا، کہیں تاج محل بنایا۔ انھوں نے سیکڑوں حسین و جمیل مساجد تعمیر کیں۔ یہ تمام چیزیں اسلام کے معلوم کو محسوس، اسلام کے مجرد کو ٹھوس اور اسلام کے غیب کو حضور بنانے کے عمل کا حصہ تھیں۔

مسلم معاشروں میں تہواروں اور شادی بیاہ کی تقریبات کی معنویت بھی یہی ہے۔ مسلمانوں کے تہوار صرف دو ہیں، یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ عیدالفطر کے تہوار میں رمضان کے روزے اور عید کی ’’نماز‘‘ حقیقت ہے اور اس کا تقریباتی پہلو اس حقیقت کا ’’مجاز‘‘ ہے۔ عید الاضحی میں حج اور قربانی تہوار کی ’’حقیقت‘‘کو بیان کرتے ہیں اور عیدالاضحی کے دیگر مظاہر اس حقیقت کے مجاز کا درجہ رکھتے ہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے شادی کو کائناتی سطح کا عمل قرار دیا ہے۔ شادی میں نکاح حقیقت کا مظہر ہے اور شادی کی دیگر تقریبات مثلاً بارات، ولیمہ وغیرہ اس حقیقت کے مجاز ہیں۔

دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی مذہب، کلچر اور تہواروں کے درمیان یہی تعلق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوازم کی تاریخ میں مذہب اور شاعری باہم اتنا آمیز ہیں کہ رام کی کہانی نظم میں بیان ہوئی ہے۔ مہا بھارت ہندوئوں کی تاریخ کا مرکزی حوالہ ہے اور یہ، نظم کے پیرائے میں لکھی گئی ہے۔ مہا بھارت کا حاصل ہندو دھرم کی عظیم کتاب گیتا ہے جو شری کرشن کی طویل تقریر ہے، اور یہ تقریر بھی نظم کی صورت میں عہدِ حاضر تک پہنچی ہے۔ ہندوازم میں داستان کی روایت کا متبادل ’’کتھا سیرت ساگر‘‘ ہے جس میں ایک کہانی سے دوسری کہانی نکلتی چلی جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں علامتی ہیں۔ ان کے کردار حیوان ہیں مگر ان میں کوئی انسان کی خودغرضی کو بیان کرتا ہے اور کوئی انسان کی خودفریبی اور مکروفریب کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوئوں کے تہواروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مثلاً دیوالی کا پس منظر یہ ہے کہ رام کو اپنے والد کے وعدے کا پاس کرنے کے لیے اپنی بیوی سیتا اور چھوٹے بھائی لکشمن کے ہمراہ چودہ سال تک جنگلوں میں جاکر رہنا پڑا۔ چودہ سالہ جلا وطنی کے بعد رام ایودھیا لوٹے تو لوگوں نے ان کی واپسی کی خوشی میں چراغاں کیا۔ اس بنیاد پر اس موقع کو ’’دیپاولی‘‘ یا چراغوں کا تہوار قرار دیا گیا۔ اسی دیپاولی کو اب دیوالی کہا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو رام کا بن واس یا جلا وطنی باپ کی بے پناہ محبت کی علامت ہے، ایفائے عہد کی علامت ہے، دنیا سے بے رغبتی کی علامت ہے، سخت کوشی کی علامت ہے۔ لیکن ہندو دیوالی کے موقع پر اب صرف چراغ جلا کر اور مٹھائی کھاکر رہ جاتے ہیں۔ انہیں رام کے کردار کا کوئی پہلو یاد ہونے کی طرح یاد نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندو ازم میں دیوالی کا مجاز اتنا اہم ہوگیا ہے کہ مجاز کی حقیقت ہی باقی نہیں رہی۔ نتیجہ یہ کہ دیوالی بیشتر صورتوں میں بیشتر لوگوں کے لیے مذہبی تہوار نہیں۔ ایک ارب کی ہندو آبادی میں شاید دس بیس لاکھ ہوں گے جن کے لیے دیوالی کی کوئی ثقافتی یا Cultural اہمیت ہوگی۔ اکثر لوگوں کے لیے دیوالی محض ایک ’’سماجی عادت‘‘ ہے، ایک اجتماعی معاشرتی سرگرمی ہے جس کی مذہبی کیا ثقافتی اہمیت بھی زائل ہوچکی ہے۔

یہی معاملہ عیسائیت کے دائرے میں ’’کرسمس‘‘ کا ہے۔ کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی ذات توحید کی علامت ہے، رسالت اور وحی کی علامت ہے، معجزے کی علامت ہے، دنیا سے بے رغبتی کی علامت ہے، احسان کی علامت ہے۔ لیکن عیسائیوں کی اکثریت کے لیے کرسمس نہ مذہبی تہوار ہے نہ اس کی اہمیت تہذیبی و ثقافتی ہے، بلکہ دیوالی کی طرح کرسمس بھی ایک ’’سماجی عادت‘‘ ہے، ایک معاشرتی سرگرمی ہے، ہلّے گلّے کا موقع ہے۔ اس میں نہ کہیں حقیقت یا Reality ہے، نہ کہیں مجاز یا Appearance ہے۔ اور اگر مجاز ہے تو ایسا کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

مذاہب کے دائرے میں انسانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو مذہب کو ’’خالص‘‘ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ خالصیت پسند یا Puritans کہلاتے ہیں۔ ان لوگوں کو کچھ اور کیا شعر و ادب تک مذہب سے انحراف نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو اگر کوئی شادی بیاہ میں دو چار گیت گاتا ہوا نظر آجاتا ہے تو یہ لوگ اسے کفر اور شرک سے کم نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگوں کے لیے مذہب محض ایک تصور اور ایک ذہنی حقیقت ہوتا ہے اور یہ لوگ مذہب کو جذبے اور احساس کی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ رجحان شخصیت کا ایک بہت ہی بڑا ’’نقص‘‘ ہے، مگر عام طور پر اسے ایک ’’ہنر‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ مذہب پر عامل بھی ہوں تو ان کے مزاج میں ایک سختی اور تشدد ہوتا ہے جو اکثر صورتوں میں تقوے کا تکبر بن کر سامنے آتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مذہب ہمیشہ ایک ذہنی حقیقت بنارہتا ہے اور ان کے جذبات اور احساسات مذہب کے لمس اور اس کی نرمی و گداز سے محروم رہتے ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگ جذباتی اور نفسیاتی طور پر کبھی تسکین سے ہمکنار نہیں ہوتے۔ یہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ مسلمانوں نے اسلام کو ثقافتی رنگ دے کر یا اسے Culturalize کرکے ہی صدیوں کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ مسلمان اسلام کو Culturalize نہ کرسکتے تو وہ ہر جگہ مقامی ثقافتوں میں جذب ہوجاتے یا اسلام نئے مسلمان پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا۔ لیکن یہ اس مسئلے کا محض ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوسرے مذہب کیا اسلام میں بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے ’’تقریباتی مذہب‘‘ کو حقیقی مذہب کا نعم البدل بنالیا ہے۔ مثال کے طور پر جشن عید میلاد النبیؐ پر چراغاں، جلسے جلوس اور میلاد کی محفلوں کا انعقاد بلاشبہ رسول اکرمؐ سے محبت کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں، لیکن بہت سے لوگ کہیں یا نہ کہیں لیکن سمجھتے یہی ہیں کہ انھوں نے چراغاں کرکے یا جلسے جلوس میں شرکت کرکے سیرت ِطیبہ پر عمل کے تقاضے بھی پورے کردیے ہیں۔ یہ خیال مذہب میں خالصیت پسندی کی ضد ہونے کے باوجود اُسی کی طرح خطرناک اور مذہب کے لیے ضرر رساں ہے۔ لیکن فی زمانہ تقریب پسندی کی سب سے بدترین صورت وہ ہے جس میں تقریباتی اہمیت ثانوی ہوتی ہے، دولت کی نمائش کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ تقریب کے لیے سرمایہ ناگزیر ہے، لیکن دولت کو تقریب کی خوشی اور معنویت پر غالب نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں تقریب مذہبی کیا، مادی معنوں میں ثقافتی بھی نہیں رہ جائے گی۔