داعیان دین کا کردار

416

 

 

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ہم ان کو ایک عمومی بیان سمجھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اس طرح کرتے ہیں جیسے ہم براہ راست اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق فرد اور جماعت دونوں سے ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اور جماعت کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔ سورہ المومنون کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: ’’بے شک ایمان والے فلاح پاگئے‘‘۔
اس کے بعد ان کی چھ صفات بیان ہوئی ہیں :1۔ خشوع کے ساتھ نماز،2۔ لغویات سے اعراض،3۔ زکوٰۃ پر عمل۔ (اللہ کی راہ میں انفاق)4۔ جنسی خواہش کی صرف جائز حدود میں تکمیل،5۔ امانت اور عہد و پیمان کی نگہداشت، 6۔ نمازوں کی ان کی حدود شرائط کے ساتھ پابندی۔ آخر میں کہا گیا ہے کہ ان اوصاف کے حامل جنت الفردوس کے وارث ہوں گے۔ ان اوصاف کا تعلق تمام اہل ایمان سے ہے۔ فرد سے بھی جماعت سے بھی۔ کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بات کا آغاز اس سے ہوتا ہے: ’’’’بے شک ایمان والے فلاح پاگئے‘‘۔ دنیا اہل ایمان کو ناکام سمجھتی ہے۔ حالانکہ کامیابی اور ناکامی کا تعلق خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بلندیٔ کردار سے ہے۔ یہ اوصاف جن میں پائے جائیں ان کی فلاح و کامرانی ہر شک و شبہے سے بالاتر ہے۔
کامیاب اہل ایمان کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہی نہیں ہوتے، بلکہ ان کی نمازوں میں خشوع پایا جاتا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں جھک جانا، پست ہوجانا۔ قیامت میں کسی کو زبان کھولنے اور دم مارنے کی ہمت نہ ہوگی۔ اسے خشوع سے تعبیر کیا گیا ہے:
’’تمام آوازیں رحمان کے خوف سے دب جائیں گی اور تم نہیں سنو گے مگر پیروں کی آہٹ‘‘۔ (طہ: 108)
ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب ہے:
’’کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور جو حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں‘‘۔ (الحدید:16)
اہل ایمان کی صفت ’الخاشعین والخاشعات‘ (الاحزاب:35) بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہؐ کے نماز تہجد کی کیفیت سیدنا علیؓ نے ایک حدیث میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں جب رکوع میں جاتے تو زبان مبارک پر یہ کلمات ہوتے:
’’اے اللہ میں نے تیرے لیے رکوع کیا۔ (اپنی پشت خم کردی) تجھ پر ایمان لایا، تیرے سامنے سر جھکایا، میرے کان، میری آنکھیں، میری ہڈیاں، ہڈیوں کا گودا، میرے اعصاب سب تیرے سامنے جھک گئے‘‘۔ (مسلم)
کیا اس طرح کی نماز ہم نے کبھی پڑھی ہے؟
سورہ توبہ میں ان خوش قسمت انسانوں کا ذکر ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے جن کے جان اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ اس بیع پر انھیں فوز عظیم کی بشارت دی گئی ہے کہ اس سے کامیاب بیع کوئی نہیں ہوسکتی۔ پھر ان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد وثنا کرنے والے، اس کی راہ میں سیاحت کرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے والے اور اللہ کے حدود کے پابند رہنے والے ہیں‘‘۔ (التوبہ:112 )
کیا یہ اعلیٰ صفات ہمارے اندر ہیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان صفات کے حاملین ہی جنت کے مستحق ہوں گے۔ اور انھیں کی جدوجہد سے دنیا میں مطلوبہ تبدیلی آئے گی۔ یہ آیات ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ تم بھی یہاں کے نظام حیات میں تبدیلی چاہتے ہو، کیا یہ اوصاف تمہارے اندر ہیں؟ اس کا ہمارے پاس کیاجواب ہے!
ان صفات کا تذکرہ ان کی اس خوبی کے بیان پر ختم ہورہا ہے: ’والحافظون لحدود اللہ‘ ہے۔ یہ بہت ہی جامع صفت ہے، جو مذکورہ تمام اوصاف اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جو بیع کی ہے اسے پوری کرتے ہیں۔ اللہ کے قائم کردہ فرائض کی ہر حال میں نگہداشت کرتے ہیں کہ وہ چھوٹنے نہ پائیں اور جن امور سے منع کیا گیا ہے ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ آیت کے آخری الفاظ ہیں: وبشرالمومنین۔ مطلب یہ کہ اہل ایمان کو جس بیع پر جنت کی بشارت دی گئی تھی وہ انھیں حاصل ہوگئی۔
ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ہم نے بھی جنت کے عوض اپنی جان و مال فروخت کردیے ہیں۔ کیا ہم اپنے عمل سے اس کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اللہ کے خاص بندوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی خوشنودی کے لیے فروخت کردیتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 207)
ہمارے اندر یہ جذبہ اور تڑپ ہونی چاہیے کہ ہم اللہ کے ان جاں نثار بندوں میں شامل ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے جو رسول دنیا میں آئے وہ اس کے محبوب ترین بندے تھے۔ اس کے دین کے لیے ان کی جدوجہد اور قربانیوں کا قرآن نے بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ خانوادۂ ابراہیمؑ کا ذکر ہے۔ ان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں:
’’وہ امور خیر میں تیزی دکھاتے تھے اور ہمیں امید و بیم کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے جھک جاتے تھے‘‘۔(الانبیاء: 90)
ہم ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ کیا یہ پیغمبرانہ اوصاف یا ان کا پرتو ہی ہمارے اندرہے۔ کیا خیر کے کاموں کی طرف ہماری سبقت ہے۔ کیا اللہ کے انعامات کی امید اور اس کے عذاب کا خوف ہمارے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ کیا ہمارے اندر خشوع اور اللہ کے سامنے سرجھکانے کی کیفیت پائی جاتی ہے؟
ان ہی اوصاف کے حامل دین وشریعت کے حامل ہوتے ہیں اور زمین کا اقتدار بھی ان ہی کے حوالے ہوتا ہے۔
دنیا کا کامیاب ترین اور خوش قسمت انسان وہ ہے جسے راہ ہدایت مل جائے۔ بدنصیب ہے وہ جو ہدایت سے محروم ہے۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔
’’اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے‘‘۔ (البقرہ: 213)
یہی حقیقت ایک اور جگہ ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
’’اللہ دارالسلام (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت فرماتا ہے‘‘۔ (یونس: 25)
آدمی اسی کے لیے نماز میں دعا کرتا ہے۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اس شخص کو راہِ ہدایت دکھاتا ہے جس کے اندر انابت ہو اور جو اس کی طرف رجوع کرے۔
’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت کے لیے چن لیتا ہے اور ہدایت اسے دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع ہو‘‘۔ (الشوریٰ: 13)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’ہدایت اسے دیتا ہے جس کا اس کی طرف رجوع ہو‘‘۔ (الرعد: 27)
یہ اوصاف آدمی کو ہدایت کا مستحق بناتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اپنے اندر پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ امید ہے اس سے راہِ ہدایت کھل جائے گی۔
’’جن لوگوں نے ہدایت کی راہ اختیار کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور ان کو ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری عطا کی‘‘۔ (محمد: 17)
بعض دینی حلقوں میں اصلاح و تربیت کا محدود تصور ہے۔ ہم اسے غلط سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید نے تزکیے کا وسیع تصور دیا ہے، جو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں تعلق باللہ، انابت، اخلاص، توبہ و استغفار، ذکر الٰہی، تفکر و تدبر، عبادات، اخلاق، معاملات، خدمت خلق، دعوت دین، اللہ کے دین کی سربلندی کی جدوجہد سب ہی انفرادی اور اجتماعی کوششیں آتی ہیں۔
اس بات کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ان تمام پہلوؤں سے ہمارا کیا حال ہے؟ ہمیں کس مقام پر ہونا چاہیے اور ہم کہاں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کھڑے بیٹھے، سوتے جاگتے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ کسی حال میں اس سے غافل نہیں ہوتے۔ ان کے اندر ذکر کے ساتھ فکر و تدبر بھی ہوتا ہے۔
’’وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں قیام و قعود کی حالت میں اور اپنے پہلوؤں پر (سوتے ہوئے) اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 191)
وہ کائنات میں پھیلے ہوئے آثار قدرت پر غور کرتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں زمزمہ سنج ہوتے ہیں:
’’اے ہمارے رب تو نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی ہے۔ تیری ذات ہر نقص سے پاک ہے۔ تو ہمیں عذاب جہنم سے بچالے‘‘۔(آل عمران: 191)
کیا ہمارے شب و روز میں کچھ ایسے لمحات بھی ہوتے ہیں جب کہ ہم خدا کی اس عظیم کائنات پر غور وفکر کی نگاہ ڈالیں اور اس سے اللہ کی یاد دل میں تازہ ہوجائے۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت، اس کے لیے ان کی فکر مندی،جدوجہد، کدوکاوش اور اس راہ کی مشکلات پر صبر وثبات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کا اعلیٰ کردار اس دعوت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ان کی پاکیزہ سیرت ان کی دعوت کی عملی تصدیق ہوتی ہے۔ رسول اللہؐ کا اسوہ اس میں زیادہ واضح ہے۔ آپ کی حیاتِ طیبہ، آپ کی شب و روز کی زندگی اور آپ کا اسوۂ حسنہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں۔ داعیان دین کو دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا دین ان سے کن اوصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ ہمارے اندر کیا خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ کن کمزوریوں سے اس کے نزدیک ہماری زندگی پاک ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کو تو اپنے سامنے رکھا ہے، لیکن اپنی ذات کو ہدف نہیں بنایا۔ اس لیے ہمارے اندر مطلوبہ اوصاف پروان نہیں چڑھ رہے ہیں۔ ہم جس مقام پر کل تھے آج بھی اسی جگہ ہیں۔ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ قرآن اور سیرت میں ہماری تمام کمزوریوں کا علاج ہے۔ ہمیں ان کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔