رنج و غم اسباب اور علاج

336

 

دکھ، جس کو رنج، غم، قلق، اضطراب، پریشانی اور تکلیف وغیرہ‘ ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا خاصہ ہے۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک فطری اور حقیقی جس کی تکلیف محسوس کرنا فطری ہے جب کہ دوسرا غیر فطری ہوتا ہے۔ حقیقی کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی چھت سے گر پڑے چوٹ آئے تو دکھ ہوگا۔ یا کسی عزیز کا انتقال ہوجائے تواس کی جدائی پر دکھ ہونا فطری ہے۔
غیر حقیقی دکھ یہ ہے کہ آدمی موہوم خیالات اور وسوسوںمیں مبتلا ہوجائے۔ ہم اس مضمون میں ان چیزوں کا جائزہ لیں گے جوانسان کے لیے دکھ کا سبب بنتی ہیں۔
اسباب
بے خبری اور جہالت
انسان کے لیے اضطراب، پریشانی اوردکھ کا ایک سبب عدم واقفیت، جہالت اور بے خبری بھی ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک اجنبی اور نئے مقام تک پہنچا ہے اور راستے سے، وہاں کے حالات سے وہ اچھی طرح واقف نہیں ہے تو اس کو یہ خوف لگا رہے گا کہ کہیں اس کا مال کوئی چھین نہ لے۔ کہیں چورا چکے اسے گھیر نہ لیں۔ اس کو قتل نہ کردیا جائے۔ اس احساس سے اس پر خوف اور ڈر طاری رہے گا۔ یہ وسوسے اس کے لیے مسلسل دکھ کا سبب بنیں گے۔ ایک دوسری مثال لیں ایک دیہات کا رہنے والا جس نے کبھی ریل سے سفر نہ کیا ہواس کو ٹرین پکڑنی ہو تو گھبرائے گا کہ ٹکٹ کیسے ملے گا، کس پلیٹ فارم سے جانا ہے۔ کون سی ٹرین پکڑنی ہے۔ یہ اور اسی طرح کے دوسرے سوالات اس کو پریشانی میں مبتلا کریں گے۔
اسی طرح کوئی عام آدمی کسی بڑے آدمی کے یہاں دعوت کے موقع پر جاتا ہے تو وہاں کے آداب محفل سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے یہ خیال ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو وہاں کی مجلس کے آداب کے خلاف ہو۔ یہ احساس اس کے لیے دکھ کا سبب بنے گا۔
ایسے ہی ایک ٹریفک قوانین سے ناواقف شخص جب ڈرائیو کرتا ہے اور وہ ٹریفک قانون کی قانون شکنی کے نتیجے میں کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے یا ٹریفک پولیس کی گرفت میں آجاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ عدم واقفیت، لا علمی و جہالت انسان کے دکھ کا ایک بڑا سبب ہے۔
اسی طرح انسان جو اس دنیا میں آیا ہے وہ کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ اس کوکیا کرنا چاہیے؟ کیا نہیں کرنا چاہیے! مرنے کے بعد کہاں جانا ہے اور وہاں کیا ہوتا ہے؟ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ جیسے سوالات بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر انسان ان سوالوں کے جوابات سے ناواقف ہے تو وہ ایک قسم کے اضطراب، پریشانی اور دکھ کی زندگی گزارے گا۔ زندگی کے مقصد سے عدم واقفیت بھی بے چینی ودکھ کا سبب بنتی ہے۔
حسد
انسان کو دکھ، رنج والم میں مبتلا کرنے والی چیزوں میں سے ایک حسد بھی ہے۔ حسد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کوکسی نعمت مثلاً عزت، شہرت، دولت، علم، فضل وکمال، حکمت اور دانائی سے نوازے تو دوسرا شخص جو اس نعمت سے محروم ہے اس کودیکھ کر خوش نہ ہو بلکہ اس کی یہ خواہش ہو کہ کسی طرح اس سے یہ نعمت چھِن جائے اور وہ اس نعمت سے محروم ہوجائے۔
حسد کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
1۔بدترین حسد یہ ہے کہ کوئی یہ خواہش کرے کہ دوسرے شخص کو جو نعمت ملی ہے اس سے وہ محروم ہوجائے خواہ وہ نعمت خود اْس کو بھی حاصل نہ ہوسکے۔
2۔دوسرے قسم کا حسد یہ ہے کہ کسی کی یہ خواہش ہوکہ دوسرے شخص کو جو نعمت حاصل ہوئی ہے، اْسے بھی حاصل ہوجائے۔ خواہ اس سے پہلے شخص سے وہ نعمت چھن ہی کیوں نہ جائے۔
3۔حسد کی تیسری شکل یہ ہے کہ فرد اپنے مدمقابل والے کو ملنے والی نعمت کا خواہاں ہو۔ لیکن اس کی یہ خواہش نہ ہوکہ دوسرا اس نعمت سے محروم ہوجائے۔
حسد کے محرکات اور اسباب کئی ہو سکتے ہیں مثلاً بغض وکینہ، بدطینی، اپنی بڑائی کا زعم وخمار اور جاہ پرستی، کسی مقصد کے حصول میں ایک کا کامیاب ہوجانا اوردوسرے کا نام ہونا وغیرہ۔
حسد کا بنیادی سبب بدطینی اور خبث باطن ہے۔ بدطینت شخص ہر کسی سے حسد کرتا ہے۔ جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو اْسے خوشی ہوتی ہے اور جب کسی پر اللہ کا اکرام ہوتا ہے، اس کے یہاں خوش حالی وفارغ البالی آتی ہے، تو اْسے غم ہوتا ہے اور اس کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اْٹھتی ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جس سے محبت والفت کا ماحول باقی نہیں رہتا۔ جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کسی کا توکچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ خود ایک اضطراب، بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ نبیؐ کا فرمان ہے:
’’حسد وبغض ایسی بیماری ہے جو مونڈ دینے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بال کو مونڈنے والی ہے۔ بلکہ یہ دین کو مونڈ کر رکھ دیتی ہے‘‘۔ (ترمذی)
(جاری ہے)