ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ

180

سیدہ زینبؓ بنت خزیمہ پہلے طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں تھیں، اس کے بعد ان کے بھائی عبیدہؓ بن الحارث کی زوجیت میں آئیں، پھر جنگِ بدر میں ان کی شہادت کے بعد ان کا نکاح نبی کریمؐ سے ہوا۔ اس روایت کو ابن حبیب نے المحبر میں، ابن عبد البر نے استیعاب میں ابن سید الناس نے عیون الاثر میں اور المحب الطبری نے السمط میں بیان کیا ہے۔
نبیِ کریمؐ کو سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کے صبر واستقامت اور ثابت قدمی کا علم ہوا اور آپؐ نے دیکھا کہ کوئی ان کی نگہداشت کرنے والا نہیں ہے تو آپؐ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس طرح امت کے غم گسار نبیِ مکرمؐ نے ایک اور بیوہ عورت کو سہارا دیا اور انھیں ’ام المساکین‘ کے ساتھ ساتھ ’ام المؤمنین‘ کا تاجِ عزت و رفعت پہنایا۔ یہ نکاح اوائل رمضان 3ھ میں ہوا۔ چار سو (400) درہم مہر مقرر ہوا۔
حافظ ابو عمرو نے لکھا ہے کہ سیدہ زینبؓ ام المومنین سیدہ میمونہؓ کی اخیافی بہن تھیں۔ نکاح کے وقت ساڑھے بارہ اوقیہ (500 درہم) مہر مقرر ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ طبری نے نکاح کا زمانہ رمضان 4ھ قرار دیا ہے۔
اس طرح سیدہ زینب بنت خزیمہؓ پانچویں خاتون تھیں جو ام المومنین کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئیں۔ اس سے پہلے سیدہ خدیجہ، سودہ بنت زمعہ، عائشہ اور حفصہؓ آپؐ کے عقدِ نکاح میں آچکی تھیں۔ سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کو سیدہ عائشہ اور حفصہؓ کی سہیلی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ ان دونوں کو یہ بھی پتا تھا کہ نبیؐ نے ان کے اور ان کے شوہر کے تقویٰ کے بنا پر ان کی دل جوئی کرنے کے لیے یہ شادی کی ہے، لہذا انہوں نے بھی خوش آمدید کہا اور ان کی برابر دل جو ئی کی۔
ام المساکین:
سیدہ زینب بنت خزیمہؓ بعض معاملات میں دیگر ازدواج مطہرات سے آگے نظر آتی ہیں۔ بڑی رحم دل، منکسر المزاج اور سخی تھیں۔ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہمیشہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتی تھیں۔ اگرچہ ان کا بچپن بڑے ناز ونعم میں گزرا، لیکن اس دور کی دوسری بچیوں کی بہ نسبت سیدہ زینبؓ بڑی منفرد تھیں۔ بچپن ہی سے انھیں غریبوں، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلانے کا بڑا شوق و ذوق تھا۔ جب تک وہ کسی کو کھانا نہ کھلا لیتیں انھیں سکون محسوس نہ ملتا تھا۔ ان کے باپ خزیمہ کا شمار اُس زمانے کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ باوجود اس دولت و ثروت کے سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کے اندر بچپن ہی سے عاجزی، انکساری اور فیاضی کی صفات پائی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ ان کی اس صفت کی وجہ سے ان کو ’ام المساکین‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے۔
ابن ہشام لکھتے ہیں:
’’سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کو ان کی رحم دلی اور نرمی کی وجہ سے ’ام المساکین‘ کہا جاتا تھا‘‘۔
الاستیعاب اور الاصابہ میں ہے:
’’انہیں اُم المساکین کہا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلاتی تھیں اور انہیں صدقہ خیرات دیتی تھیں‘‘۔
طبرانی نے ابن شہاب زہری سے روایت کیا ہے کہ: ’’جب اللہ کے رسولؐ نے سیدہ زینب بنت خزیمہؓ سے نکاح فرمایا، اس وقت بھی ان کی کنیت اُم المساکین تھی۔ یہ کنیت کثرت سے غرباء اور مساکین کو کھانا کھلانے کی وجہ سے مشہور تھی‘‘۔
بعض سوانح نگاروں نے اُم المساکین کا لقب ایک دوسری ام المومنین سیدہ زینب بنت جحشؓ سے منسوب کیا ہے، لیکن ڈاکٹر بنت الشاطی اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ سیرت کے تمام مصادر اور قرنِ اول کی تمام تاریخی کتابوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کا لقب تھا۔ (النساء النبی 136)