کیسا رہا 2020؟ – مسعود ابدالی

684

2020ء کہنے کو توختم ہوگیا مگر عذاب ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ایک مدت تک دو بڑے انسانی المیے 2020 کی وجہ شہرت بنے رہیں گے۔ایک تو کورونا وائرس کہ جس سےانسانی حیات اور اسباب حیات دونوں ہی غارت ہوگئے اور دوسرا فلسطینیوں کو دیوار میں چن دینے کی تحریک کہ جس نے51 لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کو چڑیا گھر کے جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔غزہ کے دس لاکھ افراد بجلی اور پانی سے محروم ہیں اور بدترین ناکہ بندی کے نتیجے میں پیداہونے والی خوراک کی قلت سے لوگ بے حال اور نونہال معذوری کے دہانے پر ہیں۔ غرب اردن میں آباد فلسطینیوں کےگھر اسرائیلی آبادکاروں کے حوالے کردیے گئے ہیں اور اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوجانے والوں کواردن کی سرحد کی طرف دھکیلا جارہا ہے جہاں کاکسس بازار (بنگلہ دیش) کے برمی پناہ گزینوں کی طرز پر خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔

کووڈ 19 وبا

کرونا وائرس کا آغاز 2019کے اختتام پر کچھ اس طرح ہوا کہ وسطی چین کے صوبے خوبے (Hubei)کے دارالحکومت ووہّان میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکایت ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں نے اسے نزلہ زکام سمجھ کر نظر اندار کردیا۔کچھ طبی ماہرین نے اس زکام کو ایک خاص طریقے کا نمونیاقرار دے کر علاج شروع کیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک چینی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لی وینلیانگ Li Wenliangنے سب سے پہلے اس نزلے کو ایک خوفناک متعدی مرض کا آغاز قراردیا لیکن اس کی بات پر کان دھرنے کے بجائے چینی حکومت نے افواہ سازی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے الزام میں 34 سالہ ڈاکٹر لی کو گرفتار کرلیا۔ دوسری طرف مرض بڑھتا رہا اور ہزاروں افراد ہسپتال پہنچ گئے۔متاثرین کے لعابِ دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزیے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسے2019-nCoVیا نویل کورونا واائرس کہتے ہیں۔ لفظ کورونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزیے کے دوران اس جرثومے کے جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے 2020 کے آغاز پر اسے عالمی وبا یا Pandemicتسلیم کرتے ہوئے اس مرض کو ‘کووِڈ 19’ (COVID-19)کا نام دے دیا ۔ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں آٹھ کروڑ کے قریب لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے، جن میں سے 18 لاکھ سے زیادہ کی موت واقع ہوئی۔ تباہی کے اعتبار سے امریکہ کا پہلا نمبر ہےجہاں کووڈ مریضوں کی تعداد 2کروڑ ہے جن میں سے 3لاکھ 32 ہزار افراد زندگی کی بازی ہار گئے یعنی ہر ایک ہزار امریکیوں میں سے ایک فرد کو یہ موذی مرض چاٹ گیا۔ مزید بدنصیبی کہ مرض کے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی اکثریت رنگداروں اور غریبوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک یعنی ہندوستان کووڈ کے حوالے سے بھی دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ معصوم جانیں ضایع ہوگئیں۔ برازیل تیسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کا باالترتیب 27، 28 اور 90واں نمبر ہے۔ مسلمان ملکوں میں ایران سب سے زیادہ متاثر ہے۔ تہران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے دوائوں اور طبی آلات کی بندش نے صورتحال کو انتہائی گھمبیر بنادیا ہے۔ وہاں اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہے، جن میں سے 55 ہزار افراد موت کے گھاٹ اترگئے۔

سال کے اختتام پر دنیا کے اکثر ممالک میں جدرین کاری یا Vaccinationکا آغاز ہوچکا ہے جس کی بناپر طبی ماہرین پر امید ہیں کہ 2021 کے وسط تک صورتحال معمول پر آنا شروع ہوجائیگی۔ تام اس موذی وبانے معیشت اور اسباب حیات کو جو نقصان پہنچایا اس کے ازالے کے لیے کم از کم اٹھارہ مہینے اور کچھ ماہرین کے خیال میں ڈھائی سے تین سال درکار ہیں۔

فلسطین

گزشتہ سال کا سب سے بڑا اخلاقی سانحہ عرب اسرائیل معاہدہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے جو نام دیا ہے وہ لکھتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ نسل کشی کی اس دستاویز کو اللہ کے خلیل سے منسوب کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی توہین ہے جن کے لیے حضرت ابراہیم، اللہ سے وفا اور وفاداری کا استعارہ ہیں۔اس معاہدے کا بنیادی مقصد عرب اسرائیل تعلقات کے گلے میں پھنسی فلسطین کی ہڈی کو بہت خوبصورتی سے باہر نکالنا تھاتاکہ عرب و مسلم ممالک فلسطینیوں کو اسرائیلی نسل پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے محدود وطنی بلکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے مطابق فیصلے کریں۔ صدر ٹرمپ الفت وپیار، قربت کے افتخار اور ناجائز قبضے کو توثیق کے وعدے پر مسلم رہنمائوں کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی صلاح دے رہے ہیں۔ اگر خرِ زمانہ کو یہ راتب پرکشش محسوس نہ ہو تو چچا سام کے ایک ہاتھ میں گاجر کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں موٹی سی لاٹھی بھی ہے۔تخت کو تختہ بنادینے کی دھمکی پر کیا وردی والے اور کیا ”بلڈی سویلین “امیر و شاہ، ملوک و سلاطین سب ہی سر جھکا دیتے ہیں۔کلائیاں مروڑ کر صدر ٹرمپ نے بحرین سے رباط اور کوسووو سے خرطوم تک سب کو اسرائیل کے آگے سجدہ ریز کردیا تاکہ فلسطینیوں کے حق میں ہلکی، روایتی اور رسمی سی آواز بھی نہ بلند ہونے پائے۔

صدر ٹرمپ کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، مراکش اور یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے اسرائیل سے سفارتی رابطے قائم کرلیے۔ اور تو اور ترکی نے بھی اسرائیل سے سفارتی کشیدگی ختم کرتے ہوئےسفیروں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے مابین سفارتی تعلقات تو کمال اتاترک کے شاگردِ رشید عصمت انونو کے وقت سے ہیں لیکن 2010 میں غزہ کے لیے کشتیوں کے امدادی قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد جناب طیب ایر دوان نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا اور گزشتہ 10 سال سے ان دونوں ملکوں کے درمیاتی سفارتی تعلقات معطل تھے۔

بیروت بندرگاہ کی تباہی اور الحریری قتل کا فیصلہ

گزشتہ سال کے دوران مشرق وسطیٰ کا بدترین حادثہ بیروت کا خوفناک دھماکہ تھا۔ بندرگاہ کے گودام میں ذخیرہ کیاگیا امونیم نائٹریٹ اس دھماکے کا سبب بنا، جس سے 204 افراد ہلاک ہوئے ۔ دھماکے سے سارے بیروت کی عمارتوں کو نقصا ن پہنچا اور 3 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر ہے۔

لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے پندرہ برس بعد ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوا اور عدالت نے حزب اللہ کے سلیم عیاش کو جناب الحریری کے قتل کا ذمہ دار قراردیا۔ تاہم ملزم مفرور ہے اس لیے سزا پر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا۔

تنازعات و عسکری تصادم

بین الاقوا می تنازعات کے حوالے سے اس سال کا آغاز بغداد ائر پورٹ پر امریکہ کے ڈرون حملے سے ہوا جس میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی ایران کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی شیعہ ملیشیا الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس مارے گئے۔ جواب میں ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائلوں سے حملہ کیا جس میں کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا مگراڈہ تباہ ہوگیا اور دھماکے کی وجہ سے درجنوں امریکی سپاہی نفسیاتی و دماغی عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اسی دوران امریکی حملے کے شبہے میں ایرانی انقلابی گارڈ یا پاسداران نے غلطی سے یوکرین ائرلائن کا طیارہ مار گرایا جس میں جہاز کے عملے سمیت 76 افراد ہلاک ہوئے۔

ترکی نے اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت الوفاق الوطنی یا GNAکو عسکری مدد فراہم کی۔لڑائی میں ترکی کے ہلاکت خیز ڈرون بے حد موثر ثابت ہوئے اور وفاقی حکومت نے حفتر ملیشیا کو شکست دے کر دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ ترکی و طرابلس کے دباو پر حفتر ملیشیا نے تیل کے میدانوں پر قبضہ ‘نرم کردیا اور لیبیا سے تیل کی برآمدات 20 لاکھ بیرل روزانہ ہوگئیں۔

گزشتہ برس مئی میں چین و ہند متنازع سرحد پر خوفناک عسکری تصادم درجنوں فوجیوں کی جان لے گیا۔ جھڑپ کے دوران گولوں اور گولیوں کے بجائے گھونسے، لات، کیل لگے ڈنڈے اور پتھر استعمال ہوئے۔مکالمے اور تحمل و برداشت کے نتیجے میں یہ تصادم بڑی جنگ میں تبدیل نہیں ہوا۔

ستمبر کے اختتام پر نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان خوفناک جنگ ہوئی۔ 14 روز جاری رہنے والی لڑائی میں دونوں جانب کے 5700 فوجی اور لاتعداد نہتے شہری مارے گئے۔ لیبیا کی طرح یہاں بھی ترک ساختہ ڈرون کے موثر استعمال نے جنگ کا پانسہ آذربائیجان کے حق میں پلٹ دیا اوربھاری عسکری نقصان کے نتیجے میں آرمینیا نگورنو کاراباخ کا بڑا علاقہ خالی کرنے پرتیار ہوگیا۔ آرمینیائی فوجی انخلا کے بعد اس علاقے میں روس کی امن فوج تعینات کردی گئی ہے۔

افغان امن مذاکرات

اس سال کی ایک مثبت خبر طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہے، جس پر29 فروری کو دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ امن نہیں بلکہ امریکہ اور طالبان کی جانب سے اظہارِ عزمِ امن ہے۔ طالبان نے اس بات کا یقین دلایا ہےکہ افغانستان سے واپس ہوتی نیٹوفوج کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا، افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گااور بین الافغان مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن کی راہ ہموار کی جائے گی جس کے عوض امریکہ 21 ماہ کے دوران فوجی انخلا پر آمادہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اٖفغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 2500 کردی ہے۔ دوسری طرف کئی ماہ سے جاری بین الافغان امن مذاکرات کا تعطل ہنوز ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ 20 جنوری کو حلف اٹھانے کے بعد افغانستان کے معاملے میں بائیڈن انتظامیہ کا رویہ کیسا ہوگا؟

بین الاقوامی تعلقات و معاہدات

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اس سال کی بڑی خبر یورپی یونین اور یورپی اٹامک انرجی کمیونٹی سے برطانیہ کی علیحدگی یا BREXIT ہے۔ برطانیہ یکم جنوری 1973 کو یونین کا رکن بنا اور 47 سال بعد 31 جنوری 2020 کو یورپی برادری سے الگ ہوگیا۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہونے والا پہلا ملک ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اسکاٹ لینڈ میں علیحدگی کی تحریک ایک بار پھر سراٹھاتی نظر آرہی ہے۔ یہاں آزادی کے معاملے پر 2014 میں استصواب رائے ہوچکا ہے، جس میں 55.3 فیصد عوام نے علیحدگی کی تجویز مسترد کردی تھی۔ اسکاٹ لینڈ کی وزیراعلٰی یا First Ministerمحترمہ نکولا اسٹرجین کا موقف ہے کہ یورپی یونین سے الگ ہوجانے کےبعد زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں چنانچہ برطانیہ سے وابستگی پر اسکاٹ عوام کی دوبارہ رائے لینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن نے نئے ریفرنڈم کو غیر ضروری قراردیا ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد شمالی آئرلینڈ میں بھی علیحدگی کے لیے چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔یہ خطہ 1960سے 2003 تک بدامنی اور دہشت گردی کا شکار رہ چکا ہے۔

مئی کے اختتام پر چینی کمیونسٹ پارٹی نے قانون سازی کے ذریعے ہانگ کانگ کے شہری حقوق معطل کردیے۔ 1997میں جب تاجِ برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا اسوقت بیجنگ نے عالمی برادری کو یقین دلایا تھا کہ چین کا حصہ ہوتے ہوئےہانگ کانگ میں آزادانہ تجارتی نظام، غیر جانبدار عدلیہ، منتخب انتظامیہ اور شہری آزادیاں برقرار رہیں گی۔ اس بندوبست کے لیے ‘ایک ملک دونظام یا two systems ، One Country,کی اصطلاح وضع کی گئی۔لیکن تحویل مجرمان کے معاملے پر کھڑے ہونے والے تنازعے اور ہانگ کانگ میں کمیونسٹ مخالف مظاہروں کے بعد چین کی عوامی اسمبلی نے ہانگ کانگ کو چینی قوانین کا پابند کردیا ہے جس کی بنا پر ہانگ کانگ کی منفرد حیثیت اب عملاًختم ہوچکی ہے۔

امریکہ نے 14دسمبر کو ترکی پر پابندیاں لگادیں۔ خفگی و ناراضی بظاہر تو روس سے میزائیل شکن نظام S-400 خریدنے پر ہے، لیکن لیبیا میں وفاقی حکومت کی مدد، فلسطینیوں کے حق میں جناب ایردوان کا دوٹوک موقف اور آرمینیا آذربائیجان تنازعے کے حل کے لیے روس سے براہ راست مذاکرات پر واشنگٹن کو سخت تحفظات ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں کے دوران ترکی نےدفاعی پیداوار کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس پربھی امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب نیٹو کے کسی رکن نے اپنے دوسرے اتحادی پر تادیبی پابندیاں عائد کی ہیں۔

ہوائی حادثات

برصغیر میں اس سال ہوائی جہاز کے دوبڑے حادثات ہوئے۔ رمضان میں کراچی ائرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا طیارہ گرنے سے 99 افراد جاں بحق ہوئے۔ حادثے کے بعد وفاقی وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان نے پی آئی اے کے بہت سے افسران کے جعلی لائسنس کا انکشاف کیا جس کی وجہ سے یورپی ممالک نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگادی۔ اگست میں ائر انڈیا کے طیارے کو کالی کٹ (کیرالہ) ائرپورٹ پر حادثہ پیش آیا جس میں 19 افراد ہلاک ہوئے۔

دنیا بھر کے انتخابی معرکے

سال کے دوران دنیا بھر میں قومی، صوبائی اور مقامی نوعیت کے 200 سے زیادہ انتخابات اور برما و مصر میں انتخابی ڈرامے ہوئے۔ برما میں مسلمانوں کو انتخابی سرگرمیوں سے لاتعلق رکھا گیا جبکہ مصری پارلیمان کے انتخابات میں ان امیدواروں کو نااہل قراردیدیا گیا جنھوں نے جنرل السیسی کی غیر مشروط حمایت کا وعدہ کرنے سے انکار کیا۔

ہندوستان میں دہلی اور بہار کی ریاستی(صوبائی) قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔دہلی کے انتخابات میں اروند کجریوال کی عام عوام پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لیں اور جبکہ بی جے پی کے قومی جمہوری اتحاد کو 3 سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ بہار میں بی جے پی اور ان کی اتحادی جنتا دل مجموعی طور پر آگے رہی۔

نیوزی لینڈ کے انتخابات میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی لیبر پارٹی نے شاندارکامیابی حاصل کی اور 120 کے ایوان میں 65 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔جیسندا نےکرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد جس پرجوش انداز میں مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہیں ۔ نیوزی لینڈ کے انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی لیبر، نیشنل اور گرین تینوں جماعتوں کی قیادت خواتین کررہی ہیں۔

گزشتہ سال اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہواکہ پہلی بار ایک ہند نژاد خاتون کملا دیوی ہیرس امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوگئیں۔ امریکی خواتین نے 1920 میں ووٹ دینے کاحق حاصل کیا تھا جس کے پورے سوسال بعد حواکی ایک بیٹی کو نائب صدارت کا منصب عطا ہوا۔ اس کے مقابلےمیں تیسری دنیا کی خواتین نے صنفی مساوات کا سفر کئی دہائی پہلے طے کرلیا۔ 1960 میں سری لنکا نے محترمہ بندرانائیکے کو وزیراعظم منتخب کیا۔1966 میں شریمتی اندراگاندھی ہندوستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستانی وزیراعظم کا حلف اٹھایا جبکہ 1993میں محترمہ تانسو چلر ترکی کی وزیر اعظم مقرر ہوئیں۔دلچسپ بات کہ تین سال بعد محترمہ چلر نے ‘مولوی وزیراعظم پروفیسر نجم الدین اربکان کی کابینہ میں نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ کا حلف اٹھایا۔

امریکی انتخابات کی ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک برسراقتدار صدر نے دھاندلی کا الزام لگاکر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔دلچسپ بات یہ کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے دائر کی جانے والے دودرجن سے زیادہ انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت میں مسترد کردی گئی۔

انتقال اور سبکدوشی

اومان کے سلطان قابوس بن سعید 10 جنوری کو انتقال کرگئے۔ وہ 1970 سے برسراقتدار تھے، یعنی نصف صدی کے بعد اومان میں نئی قیادت سامنے آئی ہے۔

امیر کویت شیخ صباح الاحمدالصباح کا 91 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ انھوں نے 14سال حکومت کی۔ پاکستان میں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی، ممتاز عالم دین علامہ زرولی خان اور پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کا انتقال ہوا

جاپان کے وزیراعظم شینزوایبے Shinzo Abe نےمستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ موصوف 2012 سے برسراقتدار تھے جو جاپان میں بطور وزیراعظم سب سے طویل مدت ہے۔

مواخذہ اور احتساب

صدر ٹرمپ کا اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال پر مواخذہ کیا گیا۔امریکی صدر پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے سیاسی مخالف یعنی جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرین کی حکومت پر دباو ڈالااور بات نہ ماننے کی صورت میں ملک کیلئے امریکی امداد روک دینے کی دھمکی دی۔ یہ امریکہ کی 244 سالہ تاریخ میں تیسرا اور اس صدی کاپہلا صدارتی مواخذہ تھا۔ اس سے پہلے 1858 میں صدر اینڈریو جانسن اور اس کے بعد 1998 میں صدر کلنٹن کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ بھی بری ہوگئے۔

ملائشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق پر بے ایمانی اور مالی بد عنوانیوں کے الزامات ثابت ہوگئے۔25 جولائی کو انھیں 12سال قید اور کروڑوں ڈالرجرمانے کی سزا سنائی گئی۔

پولیس تشدد اور نسلی امتیاز

امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام، جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو سماجی ذرائع ابلاغ پر چار سو پھیل گئی جس کے نتیجے میں سارے ملک میں ہنگامے ہوئے اور سماجی انصاف و نسلی مساوات کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران اس نکتے پر کھل کر بحث ہوئی۔ نومنتخب صدر جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کابینہ اوروفاقی مناصب پر سیاہ فام اور دوسری اقلیتوں کو مناسب نمائندگی دیں گے۔

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

یہ سال صحافیوں کے لیے بہت خراب رہا اور 21 صحافی قتل کئے گئے، 2019 میں 10 صحافی مارے گئے تھے۔ میکسیکو 5 کے ساتھ پہلے نمبر پر اور افغانستان دوسری نمبر پر ہے جہاں ایک جواںسال خاتون ملالہ مومند سمیت4 صحافی مارے گئے۔

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

متنازعہ زرعی قوانین کی ہندوستانی پارلیمان سے منظوری کے خلاف کسانوں کی دارالحکو مت کے گھیراو کےلیے دلی چلو تحریک جاری ہے۔پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ ادھر کچھ دنوں سےکرناٹکا، تامل ناڈو، اڑیسہ، کیرالہ اور دوسری ریاستوں میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کا موقف ہے کہ نئے قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں اور وہ انھیں واپس لینے پر آمادہ نہیں۔کسان اندولن (تحریک) کےقائدین کو شکایتہے کہ ملکی ذرائع ابلاغ نےجنھیں وہ مووی میڈیا کہتے ہیں، تحریک کا منظم انداز میں بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ ‘زبان غیر سے کیا شرحِ آزو کرتے، کے مصداق انھوں نے ٹرالی ٹائمز کے نام سے اپنا ایک اخبار بھی نکال لیا ہے یعنی

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

آخر میں ایک اچھی اور دلچسپ خبر کہ فروری سے یورپ کے 6 لاکھ نفوس پر مشتمل ملک لکسمبرگ (Luxemberg)میں پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بس ٹرام اور ریل مفت کردی گئی ہے۔ اس کامقصد نجی کاروں کی حوصلہ شکنی ہے تاکہ ماحولیاتی کثافت کو کم کیا جاسکے۔

(تحریر شائع شدہ فرائیڈے اسپیشل بتاریخ یکم جنوری 2021۔)