سعودی ،امریکا تعلقات روبہ زوال

314

اس وقت جہاں دنیااکوروناوباکے خطرے سے دوچارہے وہاں حالیہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کے بعددنیابھرجوبائیڈن کی انتخابی تقریروں اوردعدے وعید کی بناء پربالعموم دنیابالخصوص خلیجی ممالک ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں میں واضح اوریقینی تبدیلیوں کی امیدلگائے بیٹھے ہیں۔ جوبائیڈن نے دنیابھرمیں اپنی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اورجنوبی ایشیامیں جوہری تبدیلیوں کااشارہ دیکرامریکاکی ساکھ بہتربنانے کاجووعدہ کیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیاامریکاکے پالیسی سازادارے ٹرمپ کی پالیسیوں سے ’’یوٹرن‘‘لینے کاارادہ کرچکے ہیں یاایک مرتبہ پھرسازشوں کاایک ایسانیاجال تیارکیاجائے گاجہاں صہیونی عزائم کی تکمیل میں کوئی رخنہ نہ پڑسکے۔ جوبائیڈن نے اپنے ایک غیرسرکاری بیان میں کچھ شرائط کے ساتھ ایران کے بائیکاٹ ختم کرنے کاجہاں عندیہ دیاہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے دیرینہ حلیف سعودی عرب کودی ہوئی رعایات کوپابندیوں میں جکڑنے کاعمل شروع کریں گے اوراس سلسلے میں ’’جمال خاشفجی‘‘کے مبینہ قتل سے آغاز کیا جاسکتاہے۔
یوں لگ رہاہے کہ سعودی عرب اوراس کے اتحادیوں کی طرف سے قطر کے خلاف مغرب اورامریکامیں چلائی گئی بائیکاٹ میں ان کونہ صرف شکست ہوگئی ہے بلکہ قطرنے ایران کی معاونت سے بڑی تندہی کے ساتھ نہ صرف امریکی کانگرس اورسینیٹ بلکہ امریکی عوام کے اندرچلائی گئی میڈیامہم میں خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے اوریقیناً انہوں نے اپنے اس مشن کواپنے انجام تک پہنچانے کیلئے جوبائیڈن کے انتخابات میں اپنے کارڈکو بہترین اندازسے استعمال کیاہے۔ امریکامیں جہاں انتخابات کی گہماگہمی تھی وہاں امریکی ایوان کی مستقل کمیٹی کے سامنے سعودی عرب اورامریکاکی انٹیلی جنس تعلقات پربحث جاری تھی جہاں سی آئی اے کے ایک سنیئر اہلکار’’بروس ریڈیل‘‘کی گواہی نے بہت سے خدشات کو یقین میں بدل دیاہے اوران حالات کاسب سے زیادہ فائدہ صہیونی طاقتوں نے اٹھایاہے جس کیلئے ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پہلا قدم رکھتے ہی اپنے یہودی نژادداماد ’’جیراڈ‘‘ کوخلیجی ممالک سے اسرائیل کوتسلیم کروانااورچین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرورسوخ کے آگے بندباندھناتھا۔چین بروقت اورتیزی سے ان خطرات کاادراک کرتے ہوئے خطے میں اس کاتدارک کرتے ہوئے کامیاب نظرآرہاہے تاہم خلیجی ممالک کی آپس کی کشمکش اورباہم خانہ جنگی نے ان کوکمزورہدف بنادیاہے اوراسرائیل کوتسلیم کرنے اورخطے میں اس کی بالادستی ماننے کے باوجوداپنی سلامتی کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں اورسعودی وزیرخارجہ کے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے مشروط اعلان نے ساری قلعی کھول دی ہے۔
یقیناًسعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکاکاسب سے پرانااتحادی ہے۔ یہ1943 کی بات ہے جب امریکی صدرفرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ کودعوت دی کہ وہ اپنے بیٹوں کوواشنگٹن کے دورے پربھیجیں تاکہ امریکااورسعودی عرب کے درمیان بات چیت کاآغازکیاجاسکے۔بادشاہ نے اپنے بیٹے فیصل کوبھیجاجوبعدمیں بادشاہ بنے۔1945 میں ویلنٹائن کے دن مصرمیں تاریخی اجلاس ہوا،جس میں امریکانے ابن سعودکے ساتھ براہ راست معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ امریکااورسعودی عرب کے درمیان ہمیشہ بہت سادہ رہا ہے ۔اس معاہدے کے تحت امریکانے سعودی عرب کے توانائی کے ذخائرتک رسائی حاصل کی اوربدلے میں سعودی عرب کی داخلی اورخارجی سلامتی کی ذمہ داری اٹھائی۔تین ماہ قبل امریکی،سعودی سلامتی اورانٹلیجنس تعلقات سے متعلق سماعت کے دوران انٹلیجنس سے متعلق ایوان کی مستقل سلیکٹ کمیٹی کے سامنے بروس ریڈیل نے گواہی دیتے ہوئے کہا: ’’1977میں جب سے میں نے سی آئی اے میں شمولیت اختیارکی،تب سے میں ان تعلقات پرنظررکھے ہوئے ہوں۔ان تعلقات میں اتارچڑھاؤآتارہاہے جیساکہ1991 ء کی جنگِ خلیج میں تعاون اپنی انتہاپرتھااور اسی طرح1973ء میں جب سعودی عرب نے تیل کی امریکادرآمدپرپابندی لگائی تودونوں ممالک کے درمیان تعلقات خرابی کی انتہا کوچھو رہے تھے۔پھر19برس قبل11ستمبرکاواقعہ پیش آیالیکن اب سعودی عرب کے ساتھ جوتعلقات تشکیل پارہے ہیں وہ اس سب سے مختلف ہیں جوگزشتہ75برسوں میں میں نے دیکھے۔
شاہ سلمان اوران کے بیٹے ولی عہدمحمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ایک تسلسل کے ساتھ ایسی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کاآغازکیاجونہ صرف نقصان دہ ہیں بلکہ خطے میں اوردنیابھرمیں امریکی مفادات کیلئیبھی نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ان سب پالیسیوں کے روحِ رواں ولی عہد ہیں۔ہرنئی پالیسی کے پیچھے ولی عہدہی نظرآتے ہیں اوروہ ہرکام پرمکمل عملدرآمدتک خودنگرانی کرتے ہیں،اس بات کااندازہ جمال خاشقجی کے قتل والے معاملے سے بھی لگایاجاسکتاہے لیکن سارے عمل میں شاہ سلمان کی اہمیت کوبھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکیونکہ ولی عہدکے ہراقدام کانہ صرف قانونی جوازفراہم کرتے ہیں بلکہ ولی عہد کی سرگرمیوں کوتحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت محتاط اورہرقسم کے خطرات سے دوررہنے والی مملکت ہے۔یہ مسائل سے نمٹنے کیلئے فوجی قوت کے استعمال کی بجائے مالی وسائل خرچ کرنے کو ترجیح دیتی تھی۔اسی طرح منظرنامے پرآنے کے بجائے پس پردہ رہ کرکام کرنے پرترجیح دی جاتی تھی۔محمدبن سلمان کے اقتدارمیں آنے کے بعدگزشتہ پانچ برسوں میں یہ سب کچھ ڈرامائی طورپرتبدیل ہواہے۔جیساکہ میں نے پہلے کہاسعودی عرب بہت ہی غیر متوقع، لاپروا، خطرناک ہوچکاہے۔
میں اپنی بات کی وضاحت کیلئے موجودہ پالیسیوں کے تین نکات پربات کروں گا۔ان میں سب سے اہم یمن جنگ ہے۔یمن کی جنگ آج کی دنیاکاسب سے بڑاانسانی المیہ ہے۔ ہزاروں،لاکھوں بچے مشکلات کاشکارہیں اوران میں سے بہت سے بچے شاید زندہ بھی نہ رہ سکیں۔محمدبن سلمان نے آغازمیں یمن کے مسئلے کوبہت جلدحل کرلینے کااعلان کیاتھا لیکن یہ سعودی عرب کیلئے دلدل ثابت ہوا، اوراس کی بہت بڑی قیمت سعودی عرب کواداکرنی پڑرہی ہے۔بجائے اس کے کہ دارالحکومت صنعاسے حوثی باغیوں(زیدی شیعوں) کو بے دخل کیاجاتا،اس جنگ نے ایران کوبحراحمراورباب المندب میں ایک مستقل جگہ فراہم کردی اورایران کوحوثی باغیوں پرزیادہ وسائل نہیں لگانے پڑے۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب اورایران کے اخراجات کااگرتقابلی جائزہ لیاجائے تونتیجہ بہت ہی مختلف نظرآتاہے۔بجائے اس جنگ کے ذریعے ایران کے گردگھیراتنگ کیاجاتاالٹاسعودی شہر حوثیوں کے حملوں کی زد میں آگئے۔سعودی انفراسٹرکچرپرحملے اورایک مرتبہ توبراہ راست ایرانی میزائل اورڈرون بھی ان حملوں میں استعمال ہوئے اور سعودی عرب کواس صورتحال سے دوچاردیکھناایک قابل غورمعاملہ ہے۔
میراخیال ہے اب سعودی عرب کواپنی غلطی کااحساس ہوچکاہے،اوروہ جلدازجلد اس جنگ کاخاتمہ چاہتاہے۔سعودی عرب دومرتبہ جنگ بندی کی آفرکرچکاہے لیکن یمن سے اپنی فوجیں نکالنے پرتیارہے اورنہ ہی وہ یمنی صدرکی فوج کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہاہے۔دوسری طرف زیدی شیعوں کوجنگ بندی کی کوئی جلدی نہیں۔اورصاف ظاہرہوتاہے کہ زیدی شیعوں کویہ یقین ہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔یہ جنگ کلی طورپرمحمدبن سلمان کاآئیڈیاہے۔وہ پانچ برس قبل جب اس جنگ میں کودے تونہ ہی انہوں نے اس کی کوئی تزویراتی منصوبہ بندی کی تھی،اورنہ ہی اپنے اتحادیوں خاص طورپرپاکستان اورعمان کواعتمادمیں لیا،جوکہ اس قسم کے تنازعات کوختم کرنے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔اوروہ اب اپنی غلطی کیلئے قربانی کابکراتلاش کرنے کیلئے بے چین ہیں۔محمدبن سلما ن کواس بات کابخوبی علم ہے کہ شاہی خاندان میں بہت سے لوگ انہیں اس دلدل میں پھنسانے کاذمے دار سمجھتے ہیں۔حالیہ دنوں میں محمد بن سلمان نے یمن میں سعودی فوج کے کمانڈرکوبدعنوانی کے الزام میں برطرف کردیا۔جنگ کے آغازپرسعودی عرب کے اتحادی ممالک خاص طور پر عرب امارات،اردن اوربحرین جواس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ تھے،اب وہ ساتھ چھوڑچکے ہیں۔ اگرچہ امارات اب بھی تھوڑابہت ساتھ دے رہاہے لیکن عملی طورپروہ سب اس جنگ سے نکل چکے ہیں۔صرف امریکااورکسی حدتک برطانیہ اس جنگ میں ایسی تکنیکی امداددے رہے ہیں،جواس جنگ کوجاری رکھے ہوئے ہے۔اب یہ بہت ضروری ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کیلئے کچھ کیاجائے۔اس جنگ کی وجہ سے انسانی المیے نے جنم لیاہے اوربے حساب تباہی ہوئی ہے۔اس جنگ نے ہمیں اس مقام پرلاکھڑاکیاہے،جہاں ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر عرب دنیاکی غریب ترین ریاست پرظلم ڈھارہے ہیں،امریکاکواس جنگ سے نکلنے کیلئے تیزی سے اقدامات کرنے چاہئیں۔
میری سفارشات تویہ ہوں گی کہ امریکاکوسعودی عرب سے اپنی فوج کونکال لیناچاہیے،ان کے ٹریننگ پروگرام ختم کر دینے چاہئیں،اسلحے کی فروخت کاکوئی نیامعاہدہ نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ سب سے اہم تویہ کہ اسلحے کی فروخت کے موجودہ معاہدات کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ سعودی رائل ائیرفورس کے پاس موجوددوتہائی لڑاکا طیارے امریکانے دیے ہیں،جبکہ ایک تہائی برطانیہ نے فراہم کیے ہیں۔درحقیقت اگرامریکااوربرطانیہ سعودی شاہی فضائیہ کی رسد بندکردیں تووہ یک دم ہی زمین پرآجائے گی۔اس بات سے امریکاکے اثرورسوخ کا اندازہ لگایاجاسکتاہے،تاہم جتنا اثرورسوخ ہے اتنی ہی ذمے داری بھی۔
دوسرااہم معاملہ قطرکے بائیکاٹ کاہے،جس کاآغاز2017ء میں ہواتھا۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اعلان کیاکہ وہ قطرکے ساتھ ہرقسم کے سفارتی تعلقات ختم کررہے ہیں،اس کے فضائی حدودبھی بندکررہے ہیں اورآپس کی سرحدیں بھی بند کرنے کااعلان کیا۔ان اقدامات سے خلیج تعاون کونسل کوشدیدنقصان پہنچا۔خلیج تعاون کونسل کو بنانے میں امریکانے اہم کرداراداکیا تھا۔80ء کی دہائی میں خلیج فارس میں ایرانی اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے صدررونلڈریگن نے یہ تنظیم بنوائی تھی۔آج کی خلیج تعاون کونسل بہت ہی کمزورتنظیم بن چکی ہے۔درحقیقت خلیج تعاون کونسل اب ٹوٹ چکی ہے،قطرنے اس سے علیحدگی اختیارکر لی ہے اورترکی نے اس کی بھرپورحمایت کی ہے۔بحرین،سعودی عرب اورامارات ایک الگ اتحادہے،جس کی حمایت مصرکررہا ہے۔کویت اپنے آپ کوان سب معاملات سے الگ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے،جبکہ عمان ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی غیرجانبدارہی رہاہے۔
امریکانے ان ممالک کی افواج کواکٹھاکرنے اوران کی تربیت کرنے میں کئی سال لگائے۔یہ اندازہ لگاناتومشکل ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کس حدتک خراب ہوئے ہیں،لیکن اس کاتعین ضرورہوناچاہیے کہ ان سب کاذمے دارکون ہے؟اوران حالات کاسب سے زیادہ فائدہ کس کوہواہے؟ایک مرتبہ پھرایران نے ہی ان سب حالات کابھرپورفائدہ اٹھایا ہے،جیساکہ اس نے یمن جنگ کااٹھایا،بالکل اس طرح خلیج تعاون کونسل کے ٹوٹنے کاسب سے زیادہ فائدہ بھی ایران کوہی ہواہے۔ ان تنازعات کے خاتمے کی کوئی امیدنظرنہیں آرہی۔میں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ان حکام سے بات کی جوقطربائیکاٹ ختم کروانے کی کوششیں کررہے ہیں ان کاکہناتھاکہ ہمیں حالات کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نظرنہیں آرہی۔اس وقت امریکاکوچاہیے کہ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اوربحرین پرقطرکے بائیکاٹ کے خاتمے کیلئے دباڈالے۔
آخرمیں ایک اہم معاملہ سعودی عرب میں جبراوردباؤکاہے۔اس کوسمجھنے کیلئے بہترین مثال خاشقجی کے قتل کی ہے۔اس پربہت بات ہوچکی ہے۔تاہم پچھلے عرصے میں محمدبن نائف کوبھی گرفتارکرلیاگیا۔محمدبن نائف نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ باقی دنیامیں بھی القاعدہ کے خاتمے میں اہم کرداراداکیا۔انہیں بدعنوانی کے الزام میں گرفتارکیاگیاہے،اوران کی صحت کے حوالے سے کافی خدشات موجودہیں۔انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کی تاریخ کوئی اچھی نہیں رہی۔خاص طورپرصنفی مساوات پرتوبہت خدشات رہے ہیں لیکن ماضی میں اپنے مخالفین کودوسرے ممالک میں قتل کروانے کاکام کبھی نہیں کیاگیا۔اس سب میں اہم کردارمحمدبن سلمان اداکررہے ہیں۔اورامریکابھی ان غیرقانونی کاموں میں سعودی عرب کے اتحادی کے طورپرسب کے سامنے ہے‘‘۔
یوں لگتاہے کہ جلدہی جمال خاشفجی کابے گناہ خون سرچڑھ کربولے گااورذمہ داروں کواس کااسی دنیامیں حساب دیناپڑے گا۔