قادیانیت اور الحاد

953

نوجوانی میں جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے عیسائیت سے دین اسلام قبول کیا، تو کچھ عرصہ کے بعد کسی مسلمان بھائی نے مجھ سے سوال کیا تھا، کہ ’’دین اسلام قبول کرنے کے بعد اب تم کیسا محسوس کرتے ہو‘‘۔ اس سادے سے سوال کا جواب بھی بہت سادہ سا دیا کہ: ’’بہت اچھا محسوس کرتا ہوں‘‘۔ اور سچی بات ہے، مجھے اس وقت اس جواب کے علاوہ کوئی جواب آتا بھی نہ تھا، پھر ایک پادری شمعون ناصر کے خط کے جواب میں اپنی پہلی کتاب ’’اسلام عیسائیت اور سیدنا عیسیٰؑ‘‘ کے آخر میں کچھ اپنے قبول اسلام کے حالات ’’میں مسلمان کیوں ہوا‘‘ کے زیر عنوان لکھے، مجھے اسلام قبول کیے ہوئے پندرہ سولہ سال ہوچکے تھے، کہ اس دوران ایک یہی دلی تمنا تھی کہ امی جی اور چھوٹا بھائی بھی دین اسلام قبول کرلیں، اور اس حوالے میں اکثر امی جی مرحومہ کو اور چھوٹے بھائی کو مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی بے مثال کتاب ’’اظہار الحق المعروف بائبل سے قرآن تک‘‘ سے کچھ نہ کچھ حوالہ جات دیتا رہتا تھا، اور ان کے قبول اسلام کے لیے خود بھی دعا کرتا تھا، اور اپنے علمائے اسلام یعنی اکابرین بزرگوں سے بھی دعاؤں کی درخواست کرتا رہتا تھا، پھر الحمدللہ وہ دن بھی آیا جب 2007 میں ماہ ستمبر میں امی جی مرحومہ اپنی وفات سے پانچ دن قبل دین اسلام قبول کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگئی، اور 2008 میں چھوٹا بھائی بھی دین اسلام کی آغوش میں آگیا، مگر یہ سفر اتنا آسان نہ تھا، جتنا میری اس تحریر میں نظر آ رہا ہے، خصوصاً جب امی جی مرحومہ اور چھوٹے بھائی سے بحث ومباحثہ ہوتا، تو بہت سی باتیں اعتراضات کی شکل میں ان کی طرف سے آتیں، تو اس مشکل کا حل مجھے شیخ الاسلام محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے یہ بتایا کہ: اپنی والدہ اور بھائی سے بحث ومباحثہ کرنے کے بجائے ان کو ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ پڑھنے کے لیے دے دو، لہٰذا ان کے اس مشورے پر عمل کرتے
ہوئے، ان کی خدمت میں تین جلدوں پر مشتمل بائبل سے قرآن تک کتاب پیش کردی، لہٰذا محترم محمد تقی عثمانی کا یہ مشورہ کارگر ثابت ہوتا ہوا دکھائی دیا، الحمدللہ جس کے نتائج بعد میں ان دونوں کے قبول اسلام کے طور پر سامنے آئے، اس دوران اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے بھی یہی کوشش رہی کہ یہ لوگ بھی دین اسلام کی طرف آجائیں، جس میں اس قدر کامیابی ملی کہ الحمدللہ تین افراد ضمیر کی آواز پر لبیک کہ کر دین اسلام میں داخل ہوگئے، مگر سچی بات یہ ہے کہ آج بھی جب جب اپنے خاندان کے افراد میں سے ایسے لوگوں کو بغیر دین اسلام قبول کیے موت کی آغوش میں جاتا دیکھتا ہوں، تو دل تڑپ کر رہ جاتا ہے، اور اس موقع پر جو خیال مجھے سب سے پہلے آ گھیرتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے، کہ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ پیدائشی مسلمان بہن بھائی، جن کو اپنے پیاروں کا اس دنیا سے جانے پر یہ غم اور دکھ نہیں ہوتا کہ وہ اس دنیا سے غیر مسلم گیا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہ دین اسلام کس قدر دنیا و آخرت میں کامیابی والا دین ہے، اس لیے اپنے تمام مسلمان بہن بھائیوں سے التجا و التماس کرتا ہوں، کہ اپنے پیاروں کی قدر کیجیے، ورنہ الحاد و زندقہ کس قدر پھیل رہا ہے، وہ میرے اور آپ کے سامنے ہے، یہ تحریر لکھنے کی جسارت آج اس وجہ سے ہوئی، کہ میں شوشل میڈیا پر اپنے ساتھیوں سے سن رہا ہوں، کہ قادیانی مربی سلیم میر اب قادیانیت سے الحاد کی طرف جاچکا ہے، حالانکہ قادیانیت تو خود ایک کفر و الحاد کی بدترین شکل ہے، اور اسی وجہ سے ایک قادیانی سلیم میر ہی کیا، کئی اور بھی قادیانی الحاد کے اندھیرے قبول کر چکے ہیں، اس بنا پر یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اپنی خوش قسمتی پر نازاں رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آقا کریمؐ کے امتی کی حیثیت سے مسلمان پیدا کیا، ورنہ اس دنیا میں کتنے آئے اور کتنے چلے گئے، قلوب کب پھر جائیں اور زندگی کی شام کب ہوجائے، کوئی نہیں جانتا، اس لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اپنے سلامتی ایمان کی دعا کرتے رہیں، اور دوسروں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو سلامت باکرامت رکھے، آمین ثم آمین۔