بلدیاتی انتخابات اور عدالت عظمیٰ کے احکامات

225

ہمارے سیاسی لوگ کسی اور مسئلے پر متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن اس نکتے پر ضرور متفق ہیں کہ ملک میں عام آدمی کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا اور کسی دوسری طاقت کو پاور شیئرنگ میں شریک کرکے اپنے مدمقابل بھی لاکر متبادل قیادت کو پروان چڑھانا ممکن نہیں۔ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ طلبہ یونینز جمہوریت کی نرسریاں ہیں اور بلدیاتی ادارے عوام کے حقوق دلانے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسری جانب آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکمرانوں کو پابند کیا گیا ہے۔ لہٰذا آئینی شق سے کسی قیمت پر چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا بلدیاتی انتخابات کرانے ضروری ہیں۔ سابقہ حکومت نے عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات تو کرادیے لیکن اداروں میں مقامی صوبائی اسمبلیوں سے اتنی زیادہ ترامیم کرادیں کہ اُن کی جہیت ہی ختم ہو کر رہ گئی۔ موجودہ حکمران بھی بلدیاتی انتخابات کے بڑے حامی تھے لیکن اب وہ بھی ٹھنڈے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ پھر حرکت میں آئے اور حکومت کو بلدیاتی انتخابات دوبارہ کرانے کا پابند کرے۔
صغیر علی صدیقی