انسانی تاریخ اور ’’دوسرا‘‘

1029

انسانی زندگی اور انسانی تاریخ میں ’’دوسرے‘‘ کا کردار اتنا اہم اور اتنا بنیادی ہے کہ اسے نظر انداز کرکے ہم انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے۔ ژاں پال سارتر مغربی تہذیب کے صورت گروں میں سے ایک ہے۔ اس کا مشہور زمانہ فقرہ ہے۔
’’دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہیں‘‘
اس فقرے کی پشت پر مغرب کی پوری تاریخ کھڑی ہے۔ مغرب جب تک مذہبی تھا دوسرے لوگ فرد کا جہنم نہیں تھے مگر مغرب نے جیسے ہی مذہب کا انکار کیا فرد اور معاشرے کا فطری تعلق ختم ہوگیا اور فرد کو محسوس ہونے لگا کہ معاشرہ اس کے خلاف ایک سازش کا نام ہے۔ معاشرہ نہیں چاہتا کہ فرد اپنے اصول نمو کے مطابق پروان چڑھے۔ سارتر کو دوسرے لوگ اس لیے بھی جہنم نظر آئے کہ دوسرے لوگ ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ ہماری کوتاہیوں کو زیر بحث لاتے ہیں۔ ہماری کمزوریوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ہم پر اپنا طرزِ حیات مسلط کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام میں فرد اور معاشرے کا رشتہ تضاد کا رشتہ نہیں ہے۔ تعاون اور ہم آہنگی کا رشتہ ہے۔ اسلامی تہذیب میں معاشرہ فرد کی توسیع کا نام اور معاشرہ فرد کو اپنی بنیادی اکائی تسلیم کرتا ہے۔ یعنی اسلامی تہذیب میں فرد اور معاشرے کا تعلق تکمیلی یا Coplimemtory ہے۔ لیکن اسلامی تہذیب میں بھی ’’دوسرے‘‘ کا تصور موجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان دو دشمنوں، دو حریفوں یا دو ’’دوسروں‘‘ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کا ایک دشمن شیطان ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان اپنے امکانات کو سمجھے اور انہیں حقیقت بنائے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اپنے کسی مثبت امکان کو نہ سمجھے اور اسے بروئے کار نہ لائے۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان خدا مرکز زندگی بسر کرے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان انا مرکز زندگی بسر کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بتایا ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ انسانوں کا دوسرا دشمن اور دوسرا حریف خود انسان کا اپنا نفس ہے۔ انسانی نفس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ انسان کو اپنی خواہشات کی پوجا پر مائل کرسکتا ہے۔ جو نفس انسان سے اپنی خواہشات کی پوجا کراتا ہے وہ نفس امارہ ہے۔ جو انسان نفس امارہ کے زیر اثر ہے وہ آزاد انسان نہیں وہ غلام ہے۔ ایسا انسان کبھی کسی اور کا کیا خود اپنا بھی خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ انسان اسی وقت ’’آزاد‘‘ کہلانے کا مستحق ہوتا جب وہ ’’نفس مطمئنہ‘‘ پیدا کرلیتا ہے۔ ایسا انسان ہی حقیقی معنوں میں اپنا اور دوسروں کا خیرخواہ ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے فی زمانہ آزادی کا مطلب سیاسی اور معاشی آزادی تک محدود ہوگیا ہے لیکن دنیا میں ایسے اربوں انسان ہیں جو سیاسی اور معاشی اعتبار سے آزاد ہیں مگر وہ نفس امارہ کی غلامی میں مبتلا ہیں۔ نفس امارہ ان سے جو چاہتا ہے کرواتا ہے۔ ہمارا مذہب نفس کے تزکیے کا واضح تصور پیش کرتا ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نفس کے تزکیے کی طرف مائل نہیں اور وہ کبھی بھی نفس امارہ کی گرفت سے نکل کر نفس مطمئنہ کی سلطنت میں قدم نہیں رکھ پاتی۔
ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ انسان کا ماحول بھی اس کا ’’دوسرا‘‘ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ یہ ماحول کے جبر کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔ یہ اشارہ بتارہا ہے کہ ماحول اتنا اہم ہے کہ وہ انسان کا خیر و شر بدل دیتا ہے۔ اس کے مذہب کو تبدیل کردیتا ہے۔ اسے جنت یا دوزخ کا مستحق بنا سکتا ہے۔ چناں چہ ماحول کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ رسول اکرمؐ نے ماحول کے خلاف جہاد کرنے والوں کو کئی درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی برائی کو دیکھو تو اسے طاقت سے مٹادو۔ یہ ممکن نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف جہاد کرو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ماحول کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اگر آپ ماحول کو نہیں بدلیں گے تو ماحول آپ کو بدل ڈالے گا۔ اگر آپ ماحول کو اپنی اقدار کے مطابق نہیں بنائیں گے تو ماحول آپ کو اپنی اقدار کے مطابق بنالے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ماحول کے ساتھ پنجہ آزمائی بھی ’’دوسرے‘‘ کے ساتھ پنجہ آزمائی ہے۔
مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو ایمان انسان کا ’’اپنا‘‘ ہے اور کفر اور شرک انسان کے دوسرے یا اس کے پرائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایمان انسان کا ’’اپنا‘‘ کیوں ہے اور کفر اور شرک انسان کے پرائے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایمان انسان کو وہ بتاتا ہے جو انسان فی الاصل ہے۔ انسان اگر اللہ کا بندہ نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں۔ انسان کا شعورِ بندگی ہی انسان کو اس کی اصل سے جوڑتا ہے۔ اس کے برعکس کفر اور شرک انسان کو اس کی اصل سے کاٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے انسان کو ایمان سے جوڑا ہے اور اسے کفر اور شرک کے تنفر میں مبتلا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان انسان کی تعمیر ہے اور کفر و شرک انسان کی تخریب ہیں۔ ایمان انسان کو خدا سے جوڑتا ہے کفر اور شرک انسان کو خدا سے دور لے جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں شادی کا ادارہ ’’دوسرے‘‘ کو ’’اپنا‘‘ بنانے کا ایک بہت ہی بڑے تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ میر نے کہا ہے۔
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی نفسیات الگ ہوتی ہے۔ اس کی سماجیات مختلف ہوتی ہے۔ اس کی معاشیات جدا ہوتی ہے۔ اس کے تجربات منفرد ہوتے ہیں۔ اس کی پسند اور ناپسند جداگانہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شادی کے ادارے کے ذریعے دو مختلف کائناتوں کو ایک کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب بر بنائے مشاہدہ، بربنائے علم اور بر بنائے تجربہ جانتے ہیں کہ بہت سے شوہر اور بہت سی بیویاں دس دس بیس بیس سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے لیے ’’اجنبی‘‘ رہتے ہیں۔ ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں ہو پاتی اور وہ اپنے شریک حیات کو ’’دوسرا‘‘ خیال کرتے ہیں۔ سلیم احمد کا شعر ہے۔
قربِ بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی ناآشنا کے ساتھ
میر تقی میر نے ’’غبارِ میر‘‘ یا اجنبیت سے عہدہ برآ ہونے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ آدمی، آدمی سے محبت کرے۔ صرف عشق یا محبت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی دوسرے کی نفسیات، عمرانیات اور معاشیات کو پھلانگ سکے۔ محبت کرنے والے کے لیے صرف انسان اہم ہوتا ہے۔ اس کی عمرانیات، اس کی معاشیات، اس کی ذات اور اس کی نفسیات نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ محبت کرنے کی صلاحیت ہر شخص کے اندر نہیں ہوتی۔ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے خاندان، اپنے عمرانی اور اپنے معاشی پس منظر کی اسیر ہوتی ہے۔ وہ اس پس منظر سے کبھی اوپر نہیں اُٹھ پاتی۔ وہ کبھی اپنی عمرانیات اور اپنی معاشیات کو نہیں پھلانگ پاتی۔ چناں چہ وہ کسی ’’دوسرے‘‘ سے اس طرح محبت نہیں کرپاتی کہ دوسرا، دوسرا نہ رہے ’’اپنا‘‘ بن جائے۔
تجزیہ کیا جائے تو روس اور چین میں سوشلسٹ انقلاب بھی ’’دوسرے‘‘ کے تصور کے تحت برپا ہوا۔ کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کا ’’دوسرا‘‘ باور کرایا۔ مارکس نے کہا انسانوں کا بنیادی مسئلہ ’’طبقاتی‘‘ ہے۔ ایک طرف ایک چھوٹا سا مالدار طبقہ ہے۔ دوسری طرف غریبوں اور محنت کشوں کا مفلوک الحال طبقہ ہے۔ سرمایہ دار طبقہ کمزور طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ اس نے غریبوں یا پرولتاریوں سے کہا کہ متحد ہوجائو اور استحصالی طبقے کی بالادستی کو چیلنج کرو۔ مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے کے حوالے سے جس دوسرے کا تصور پیش کیا تھا وہ عام سطح پر مقبول ہوا۔ اگرچہ اب سوشلزم اور اس کی نمائندہ ریاستوں کو ختم ہوئے تیس سال ہوگئے ہیں مگر مارکس کے ’’دوسرے‘‘ کی گونج آج بھی علمی فضا میں موجود ہے۔
ہندو ازم میں ذات پات کی سطح پر ’’دوسرے‘‘ کا تصور موجود ہے۔ شودر، برہمنوں اور شتریوں کے ’’دوسرے‘‘ ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کو اپنے دوسرے سے اتنی نفرت ہے کہ وہ اسے کیا اس کے سائے کو بھی ناپاک تصور کرتے ہیں اور اس سے بچتے ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو گزشتہ چھے ہزار سال سے اپنے دوسرے کا استحصال کررہے ہیں مگر ان کی تسکین ہی نہیں ہوپارہی۔ چناں چہ آج بھی ہندوستان میں دوسرے پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔
جہاں تک جدید مغربی دنیا کا تعلق ہے تو وہ نسل، زبان اور جغرافیہ کی بنیاد پر اپنے اور پرائے کا تعین کرتی ہے۔ جو اہل مغرب کی نسل، زبان اور جغرافیے سے تعلق رکھتا ہے وہ ان کا ’’اپنا‘‘ ہے اور جو ان کی نسل، زبان اور جغرافیے سے تعلق نہیں رکھتا وہ پرایا ہے۔ مغرب کے نوبل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے اس بنیاد پر پورے مشرق کو ’’دوسرا‘‘ قرار دیا ہے اور مشرق کو آدھا بچہ اور آدھا شیطان کہا ہے۔
اسلام بھی دوسرے کے تصور کا حامل ہے مگر اسلام دوسرے کا تعین نسل، رنگ، زبان اور جغرافیے کی بنیاد پر نہیں آسمانی ہدایت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اسلام کہتا ہے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے تمام لوگ ایک ہیں۔ وہ ایک امت ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ۔
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کا دوسرا اصل میں صرف کافر یا مشرک ہے۔ کافر اور مشرک کے سوا جو کوئی ہے مسلمان کا ’’اپنا‘‘ ہے۔
غور کیا جائے تو یہ حقیقت راز نہیں رہتی کہ خود پاکستان بھی دوسرے کے تصور کا حاصل ہے۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے اور دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام ہے۔ مسلمانوں نے تاریخ کے ایک اہم مرحلے پر کہا کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں ہیں۔ ہندو مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور سماجی بنیاد پر مسلمانوں کے ’’دوسرے‘‘ ہیں۔ مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ہندو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدائوں کو پوجتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہیروز ہندوئوں کے ولن ہیں اور ہندوئوں کے ہیروز مسلمانوں کے ولن ہیں۔ ہندو جس گائے کو ماں کہتے ہیں اور پوجتے ہیں مسلمان اس گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں کو اپنے عقاید کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ ملک چاہیے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کا تصور نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔