موجودہ بحران اور صدر پاکستان

513

موجودہ حکومت خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کی عاقبت نااندیش ’’انا‘‘ ضد اور مسلسل ہٹ دھرمی منتشر خیال جماعتوں کے پلیٹ فارم پی ڈی ایم کو روز بروز مربوط اور توانا کرتی چلی جارہی ہے اور حکومت کے خلاف ان کا بیانیہ نیب نیازی گٹھ جور کو تقویت پہنچا رہا ہے اور اب انہوں نے وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے غیر مہذب رویے جھوٹے الزامات اور روز کی دشنام طرازی اور خود عمران خان کے غرور اور تکبر کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں عمران خان کے متکبرانہ لب ولہجے میں کچھ نرمی دکھائی دینے لگی ہے۔ پہلے وہ اکڑ اور اتراہٹ کے ساتھ کہا کرتے تھے کے میں این آر او نہیں دونگا مگر اب اپوزیشن درشت لہجے میں خود ان کو این آر او کی بھیک مانگنے سے روکتی ہے نتیجتاً ملک میں ایک طرف انتشار اور افراتفری بڑھتی جارہی ہے وہیں دوسری جانب ملک تیزی کے ساتھ ایک نئے سیاسی اور آئینی بحران کے شکنجے میں کستا چلا جا رہا ہے، متحدہ حزب اختلاف اور خصوصاً مسلم لیگ نواز کے جلسے جلوس اور ریلیوں میں حکومتی پابندیوں کے باوجود شدت اور تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور انہوں نے ن سے ش اور ش سے میم نکلنے کی تمام خوش گمانیوں کی دھجیاں اڑا کر خود کو ایک میچور پارٹی اور اپنی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کر دیا ہے جس نے وزیر اعظم کو کورونا کی آڑ لینے پر مجبور کیا اور اب وہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کو تین ماہ تک موخر کرنے کی درخواست کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں جبکہ یہی تین ماہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے آر یا پار کر دینے کے ہیں جس کا اظہار مریم نواز بر ملا کرچکی ہیں بے شک کورونا کے پھیلائو سے بچنے کے لیے وزیر اعظم کی اپیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر جب بھوک اور بیروزگاری نے مجبور اور بے کس عوام کو خود ہی موت کے دہانے پر جا دھکیلا ہو تو کورونا کا خوف پھر کون کرے اور جب عوام کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنی آل عیال کی موت قریب نظر آرہی ہو اور اس حد تک قریب کے مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ ایک باپ اپنے پانچ بچے نہر میں پھینکنے پر مجبور ہو جائے تو پھر کسی عمران خان کی اپیل کارگر نہیں ہو سکتی۔
متحدہ حزب اختلاف کی اس بات میں وزن ہے کہ کوڈ- 19 کے خاتمے کے لیے کوڈ – 18 کا خاتمہ پہلے ضروری ہے یہاں پی ڈی ایم کی ایک اور بات سچ ثابت ہوگئی کہ عمرانی عفریت ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں اور ان کا زور ٹینٹ، کرسیاں اور ساونڈ سسٹم فراہم کرنے والوں تک محدود ہو چکا ہے اور اس کا اعتراف انھی کا ایک کھلاڑی جس کی صلاحیتوں کے وہ خود معترف رہے ہیں ڈی جے بٹ چیخ چیخ کر کر رہا ہے تواتر کے ساتھ ہمارے عسکری ادارے المعروف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپوزیشن کا بیانیہ اس پر مستزاد ہے اور جو لوگ پاک صاف سمجھے جاتے تھے ان کے دامن پر بھی کرپشن کے داغ اب نمایاں نظر آنے لگے ہیں کیا عدلیہ اور کیا نیب جس کو ڈاکو کہتے تھے خود کو اسی کی طرح تصور کرنے کی درخواست اور جو چپراسی کے لیے بھی موضوع نہ سمجھا جاتا تھا اس کی وزارت کی مکمل ناکامی کے باوجود اسے اپنی انکھوں کا تارا بنائے رکھنا ان کی مجبوری اور پائوں کی بیڑی بن چکا ہے اور وہ اپنے اپ کو ایک کمزور سہاروں پر کھڑا محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔
لہٰذا موجودہ بحران سے سے نکلنے کا واحد طریقہ قومی مکالمہ ہی ہے جو دیر سے سہی وزیر اعظم اب خود کر رہے ہیں مگر جس کو اب متحدہ حزب اختلاف مسترد کر رہی ہے ازل سے یہ دستور اور طریقہ چلا آرہا ہے کہ دو کی لڑائی روکنے کے لیے تیسرا فریق میدان میں آئے مگر یہاں بھی ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تیسرا فریق ہمیشہ ناقابل اعتبار رہا ہے پہلے تو حقیقتاً وہ صلح صفائی کی نیت ہی سے میدان میں آتا ہے مگر میدان میں آتے ہی فریقین کی کمزوریاں اسے میدان مار لینے پر مجبور کردیتی ہیں اس تجربے سے ہم ایک نہیں کئی بار گزرے ہیں لہٰذا انہیں دوبارہ اس کام کے لیے بلانا اور ان سے بہتری کی توقعات رکھنا دیوانے کا خواب ہوگا پھر کون ہے جسے ان بحرانوں میں ثالثی کا کوئی کردار ادا کرنا چاہیے تو ظاہر ہے کے ملک میں صدارتی کرسی پر براجمان وہ شخص ہی ہو سکتا ہے جس کو زبان بندی کا معاوضہ دے کر صرف تماشا دیکھنے کے لے منتخب کیا جاتا ہے لہٰذا بحرانوں کے حد سے گزر جانے کی واحد وجہ بھی صدر کے اختیارات کا نہ ہونا ہے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اسے جمہوری نظام کو لپیٹ دینے کا کلی اختیار دے دیا جائے مگر اتنا تو ہو کہ وہ اپنی آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ہر متنازع معاملات میں کچھ ثالثی کرا لیا کرے۔ ہم نے 58- ٹو بی کے نتیجے میں جمہوری بساط لپیٹتے صدور بھی دیکھے اور اس شق کو ہٹائے جانے کے بعد گونگے اور بہرے صدور بھی ملاحظہ کر رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صدارتی انتخاب کا طریقہ اور ان کا الیکٹرول کالج ہے جس کی وجہ سے صدر کا منصب پارٹی چیئرمین کے ماتحت فرد کو ملتا ہے پھر ظاہر ہے کہ پارٹی کے قواعد و ضوابط کا پابند صدر خود اپنے قائد کے ہر اچھے برے رویے پر اس کی سرزنش کس طرح کر سکتا ہے اور اسے راہ راست کیونکر دکھا سکتا ہے ہمارے ملک میں موجود تمام تھنک ٹینک کو اس پر غور و غوض کرنا چاہیے اور دنیا بھر کے صدارتی نظام کے مطالعے کے بعد این میں کوئی ایسی ترامیم لانے کی کوشش کرنی چاہیے جو بڑکپن کا رول ہمیشہ ادا کر سکے اس ضمن میں میری ناقص تجویز یہی ہے کہ اول صدر کا انتخاب عوام کے براہ راست ووٹوں سے ہو، دوم وہ ایک غیر سیاسی معروف شخص ہو، اس کا شمار ملک کے معتبر افراد میں ہوتا ہو، سوم اس کا تعلق عدلیہ، صحافت، تجارت، معیشت، سابق بیوروکریٹ یا پھر تجارتی حلقے سے ہو شاید اس طرح ہماری سیاست اور معیشت دونوں ناہموار اور تنگ سڑک سے نکل کر کسی کشادہ پٹری پر دورنے کے قابل ہو جائے۔