مذہب کا استعمال

554

اپنے پچھلے مضمون ’’مذہب کا استعمال‘‘ میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ کوئی عالمی ادارہ اور ملک مسلمانوں کی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے احتجاج سے بڑھ کر بھی کچھ سوچنا ہوگا۔ قارئین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ہم یہاں مزید وضاحت کردیتے ہیں کہ وہ کیا عملی اقدامات ہوسکتے ہیں جو ایک عام شہری کی حیثیت سے ہم کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے مقام کا تعین کرنا ہوگا۔ صرف یاد دہانی کے لیے ہم سب مسلمان ہیں اور ہماری زندگی کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا یا اسلام کی سربلندی ہے۔ اور اس کے لیے ہم جوابدہ ہیں۔ اپنے اس مقصد کو ایک دفعہ دہرا لیں اب یہ سوچیں کہ اپنی موجودہ حیثیت میں ہم اپنے دین کی سربلندی اور موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔
تاجر: جس طرح معیشت ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح تاجر بھی معاشرے میں کسی بھی رجحان کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے طول عرض میں اسلام کی روشنی بکھیرنے والے یہ تاجر ہی تھے۔ اگر آپ اس اہم پیشے سے وابستہ ہیں تو ایمانداری اور عہد کی پاسداری کے ساتھ اپنی اشیاء کی تشہیر کی خاطر اسلامی اقدار و روایات کو پامال نہ کریں۔ نیز معاشرے میں ایسے رجحان کو فروغ نہ دیں جو آخرت میں خدا نہ کرے آپ کو محبوب خدا رسول اللہ کے سامنے شرمندہ کرے۔ خصوصاً کپڑے کے تاجر اس بات کا خیال رکھیں۔ ہمارے درمیان ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خوشی کو مقدم رکھا تو اللہ نے برکت، شہرت اور عزت سے نوازا۔
استاد: استاد معاشرے کو شعوری بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ استاد کا کام ہے کہ ہماری نسلوں کو مطالعہ اور محنت کا عادی بنائیں، تخلیقی صلاحیتیں بیدار کریں، انہیں ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کا سفر کرنا سکھائیں۔ ان کی آنکھوں کو بلند خواب دیں، انہیں مختلف موضوعات پر مکالمہ کرنا سکھائیں، تنقید کرنے اور سننے کے فن سے آگاہ کریں۔ شوق اور صلاحیت کے مطابق انہیں کوئی ہنر سیکھنے کے لیے مائل کریں قطع نظر اس سے کہ آپ کون سا مضمون پڑھاتے ہیں اپنے شاگردوں کا رشتہ رب سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ امید ہے اس سے رب بھی راضی ہوگا اور معلمی کا حق بھی ادا ہوگا۔
صحافی: سچ بولیں، سچ لکھیں، سچ پھیلائیں اور اس کے لیے آسمانی ہدایت (قرآن) سے اور اس ہدایت کو ہم تک پہنچانے والے نبی مہربان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں۔ اسی کی روشنی میں تجزیہ کریں اور پھر قوم کو حل کی طرف لے جائیں۔ انہیں حالات سے باخبر کریں الجھائیں نہیں۔ امید دیں، حوصلہ دیں، مثبت سوچ دیں۔
والدین: یہ وہ منصب ہے جس کا تعلق دنیا سے جانے کے بعد بھی اس دنیا سے قائم رہتا ہے۔ دنیا کے حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور رسول اللہ کی پیش گوئی کے مطابق اس میں مزید تیزی آئے گی۔ آپ نے اپنے بچوں کو بحیثیت مسلمان اس تبدیلی کے لیے کتنا تیار کیا ہے؟ جسمانی طور پر، ذہنی طور پر، روحانی طور پر؟، کیا فتنوںکا دور شروع نہیں ہوچکا؟ کیا اب بھی غفلت کی کوئی گنجائش ہے؟ جس طرح اپنے بچوں کی دنیاوی ضروریات پوری کرنے اور دنیاوی مستقبل بنانے کے لیے سعی و جدو جہد کی جاتی ہے کم از کم اتنی ہی کوشش ان کی اخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے کی جائیں۔ ان کے لیے دینی اور دنیاوی دونوں علوم کا بندوبست کریں، بہترین پیشہ اختیار کرنے کی طرف رہنمائی دیں، بری صحبت سے بچا کر اچھی صحبت فراہم کریں، اپنے پیشہ کو مخلوق خدا کی خدمت اور اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیں، کوئی اچھا مشغلہ اختیار کروائیں، ان کے مسائل سنیں، ان کو رہنمائی دیں، موجودہ دور کے فتنوں سے آگاہی بھی دیں اور بچاؤ کی تدبیر بھی کریں۔ سب سے بڑھ کر ان کے لیے زوج تلاش کرتے وقت اپنی نسلوں کی فکر کریں۔
علماء دین: آپ معاشرے کی بیک وقت بنیاد بھی ہیں اور چھت بھی۔ قوم آپ کو متحد اور مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔ کم از کم وہ امور جو معاشرے کو بہت متاثر کررہے ہیں ان پر آپ کا مشترکہ موقف معاشرے سے برائی کے خاتمہ میں معاون ہوگا۔ مثلاً میڈیا پر جاری بے حیائی اور فحاشی نے ہماری نسلوں کو اتنا متاثر کردیا ہے کہ اب اس کے اثرات بد سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں، اسے روکنے کے لیے آپ سب کا مضبوط مشترکہ موقف اور متفقہ لائحہ عمل اس سیلاب کے آگے بند ثابت ہوگا ان شاء اللہ، ایسے کئی امور ہیں جو آپ سب کی توجہ کے طالب ہیں۔ امید ہے آپ قوم کو اور امت کو مایوس نہیں کریں گے۔
ہم نے یہاں دانستہ حکمرانوں کا تذکرہ نہیں کیا ہے، کیونکہ مطالبہ ان سے کیاجاتا ہے جن سے امید ہو، نیز اگر معاشرے کے یہ طبقات اپنی ذمے داری پوری کرنے لگ جائیں اور ہمارا اپنا دین ہماری ترجیح اول بن جائے تو حکمرانوں کے چناؤ کے وقت بھی ہم تمام تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنے عظیم مقصد ہی کو ہی پیش نظر رکھیں گے، چنانچہ جیسے عوام ویسے حکمران کے مصداق ہمیں بھی اچھے حکمران میسر آجائیں گے، ان شاء اللہ۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوسکے گا جب کوئی لالچ، کوئی ذاتی غرض، کوئی ذاتی مفاد، ہمارے قدم نہ ڈگمگائے، ہماری راہ کھوٹی نہ کرے۔ دنیا کی سب ہی اقوام کسی نہ کسی بڑے مقصد کے لیے جی رہی ہیں سوائے مسلمانوں کے جبکہ ان کا مقصد زندگی تو اس دنیا سے آگے آخرت کی دائمی زندگی تک کا ہے۔ یاد رکھیں مسلمان مر کر بھی نہیں مرتا مسلمان اس وقت مرتا ہے جب وہ اللہ کے دشمنوں کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ آئیں اپنی سوچ بدلیں اور اپنا آنے والا کل بہتر بنائیں۔