اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو

523

بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا میں ایک بار پھر پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس ضمن میں حکومت پاکستان پر ایک دوست عرب ملک کی طرف سے دبائو کی اطلاعات زیرگردش ہیں۔ یہ اطلاعات حقیقت ہیں یا فسانہ گو اس حوالے سے تادم تحریر حتمی طور پر کوئی بات کرنا مشکل ہے البتہ پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں یہ کہنا کہ پاکستان فلسطینیوں کے اطمینان تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا نیز وزارت خارجہ کی جانب سے ایک باضابطہ وضاحت میں یہ کہنا کہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نہ توکوئی آپشن زیر بحث ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں پاکستان پر کسی بھی دوست ملک کی جانب سے کوئی دبائو ہے لہٰذا ان وضاحتوں کے بعد اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی اطلاعات کو اگر منفی پروپیگنڈہ قراردیا جائے تو شاید بے جا نہیں ہوگا لیکن ہمارے ہاں چونکہ اس طرح کے شوشے چھوڑنا معمول بن چکا ہے اس لیے اس پر بظاہر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس صورتحال کا دوسرا رخ پاکستان کا نظریاتی تشخص اور اسے عالم اسلام میں حاصل مقام ہے جو اسے دیگر اسلامی ممالک سے قدرے ممتاز بناتا ہے۔ دراصل پاکستان کے اسی مخصوص پس منظرکی وجہ سے یہاں جب بھی اسرائیل کے حوالے سے کسی نرم گوشے کا اظہار سامنے آتا ہے تو پوری قوم میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اصل میں اہل پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے اس جذباتیت کا تعلق یہاں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے عقیدے اور ایک جسد واحد ہونے کے ناتے ان کے دلوں کا اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکنے سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج سے سات دہائیوں قبل تک اسرائیل نامی کسی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا اور فلسطین کا سارا علاقہ خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ بیت المقدس اور یہ سارا علاقہ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں فتح ہوا تھا اور اس وقت سے یہ پورا خطہ خلافت اسلامیہ کا حصہ چلا آ رہا تھا لیکن پہلی جنگ عظیم میں جرمنی اور اس کے اتحادی خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب اتحادی ممالک نے برطانیہ کی قیادت میں اس جنگ میں کامیابی حاصل کی تو دنیا کے دیگرخطوں کی طرح ان فاتح ممالک نے خلافت عثمانیہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے آپس میں بانٹ لیا تھا بعد میں اقوام متحدہ کے ایک فیصلے کے تحت فلسطین کو تقسیم کر کے اس کے ایک حصے کو اسرائیلی ریاست قرار دے کر اسے اس مقدس سرزمین میں ایک خنجر کے طور پر گھونپ دیا، اس کا دوسرا حصہ فلسطینیوں کے قبضے میں رہا جو ابھی تک ایک نیم خودمختار فلسطینی ریاست کے طور پر چلا آرہا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ نے برطانیہ اور امریکا کی شہ پر فلسطین کو تقسیم کر کے جس ا سرائیلی ریاست کی غیرمنصفانہ بنیاد رکھی تھی اسے مجموعی طور پر مسلمان ممالک نے قبول نہیں کیا تھا بلکہ مسلمانوں نے اسے فلسطینیوں پر ظلم اور بیت المقدس کے خلاف سازش قرار دیکر مسترد کردیا تھا۔
اسرائیل چونکہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وجود میں آیا تھا اس لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قراردیا تھا بعد ازاں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ دن اور آج کا دن پاکستان شروع دن سے اسرائیل کو ایک غاصب ملک قراردیتا رہا ہے جسے بڑی طاقتوں نے ایک منظم سازش کے تحت فلسطینیوں کو دربدر کر کے ان کے سروں اور ان کی سرزمین پر زبردستی مسلط کیا ہے۔ اس ساری کشمکش میں اسرائیل اور پڑوس کے عرب ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں لیکن بدقسمتی سے ان جنگوں میں بڑی طاقتوں کی مداخلت اور سرپرستی سے چونکہ اسرائیل کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا اس لیے ان حالات میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب عربوں سے کہا گیا کہ اگر آپ اسرائیل کی 1967 سے پہلے والی پوزیشن تسلیم کر لیں تو ہم اسرائیل کو شام، مصر اور اردن سے ہتھیائے گئے علاقوں سے واپس جانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اسی وعدے کی بنیادپر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کا ڈول ڈالا گیا جس کے نتیجے میں1979میں مصر اور 1994 میں اردن سے اسرائیل کو تسلیم کر وایا گیا تاہم سعودی عرب، پاکستان، ایران اور دیگر مسلم ممالک اب تک اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے کے اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں البتہ پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے بعد سے جہاں سوڈان اور سعودی عرب کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوطرفہ رابطوں کی باز گشت سنائی دیتی رہی ہے۔
اِدھر اُدھر سے پاکستان کے متعلق بھی یہ خبریں اُڑائی جا رہی ہیں کہ پاکستان بھی دبائو میں ہے۔ تعجب ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مسلمان ممالک سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل پر اسے 1967کی پوزیشن پر واپس جانے اور فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرنے کے لیے کسی بھی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نہ صرف یہ کہ 1967 کی پوزیشن پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا بھی رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کو کشمیر سے دستبرداری پر محمول کرتے ہیں تو پھر فلسطین کے معاملہ میں ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی رائے عامہ کو آخر کیونکر نظرانداز کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہم کسی بھی وجہ سے اسرائیل کی موجودہ حیثیت میں تسلیم کریں گے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں کشمیر سے بھی دستبرداری کے لیے خود کو تیار رکھنا ہوگا کیونکہ اگر ہم مسئلہ فلسطین پر لچک اختیار کریں گے تو ہمارے لیے مسئلہ کشمیر پر کھڑے رہنے کا بھی کوئی اخلاقی اور قانونی جواز باقی نہیں رہے گا۔