خانہ بدوش اور اورنج ٹرین

506

فالج زدہ نظام کے تحت صرف مخصوص حکمران پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے۔ زیادہ تر حکمران حادثاتی طور پر آئے۔ پر تعیش حکمرانی نے ان کی عدالتی اور بگاڑ دیں۔ کمزور عدالتی نظام نے ان کے دیدے ہوائی کر دیے۔ کمزور اور رشوت میں رنگے ادارے حکمرانوں کے اقتدار کو طول دینے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ جو بھی آتا ہے خود کو اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ بڑا حسین اتفاق ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی بھی حکمران یہ نہ سمجھ سکا کہ آخر کرنا کیا ہے۔ یہ سب نوشے میاں کی طرح اٹھتے بیٹھتے رہے۔ جی آئیے باہر سے ایک وفد آیا ہے، فلاں جگہ کا افتتاح کر دیں، فلاں دن آرہا ہے اچھے سے تیار ہو جائیے۔
یوں وقت گزرتے گزرتے پچھتر سال ہو گئے اور قوم آج بھی 1880 کا نصاب پڑھ رہی ہے۔ نہ صرف تعلیم بلکہ تربیت بھی نہ ہو سکی۔ کسی کو وزیر صحت بنایا تو پتا چلا کہ پرائیویٹ اسپتالوں کی لائن لگ گئی۔ اور پھر اس کے بعد پرائیوٹ لیباٹریوں کی۔ یعنی وہ ان پچھتر سال میں یہ نہ سمجھ سکے کہ صحت کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
کچھ یہی حال شعبہ تعلیم کا رہا۔ کسی کی سمجھ میں یہ آیا کہ کیا پڑھنا ہے، اور پڑھانے والے کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ سرکاری اسکول اپنی اہمیت کھو بیٹھے نجی اسکولوں کی لائن لگ گئی۔ اب عوام کی جیب پر دو طرح سے ڈاکا پڑنے لگا صحت اور تعلیم پر عوام خود خرچ کرنے لگے۔ جنہوں نے سرکاری اسکولوں میں تھپڑ سہ لیے تھے اب وہ اپنے پھول سے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے سے پیچھے ہٹ گئے۔ اب بہت سے معاملات گڈمڈ ہو گئے۔ نصاب کون بنا رہا ہے۔ کون پڑھا رہا ہے۔ یہ نصاب کن ممالک سے میل کھاتا ہے۔ باوثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ بہت سے اسکولوں نے جان بوجھ کر سائنس کی آسان کتب لگوائی ہوئی ہیں تا کہ واجبی اہلیت کی خواتین پڑھا سکیں۔ اب ہم سائنس میں تیر تو چلانے سے رہے۔
اب ذرا ٹرانسپورٹ کو دیکھ لیجیے۔ ماضی میں ہر مرتبہ ایک نیا وزیر ٹرانسپورٹ آتا اور نئے روٹ کے پرمٹ بیچ کر چلا جاتا۔ ہم جب کچھ عرصہ برطانیہ میں رہنے کے بعد واپسی پر لوہے کے بڑے بڑے ڈبوں کو پڑی پر چلتے ہوئے دیکھا تو ششدر رہ گئے۔ ہر بیوروکریٹ اور وزیر نے اپنی ذات کے لیے تو جدت طرازی کر لی مگر ملک کے لیے کچھ نہ کیا۔ کراچی میں صوبائی سیکرٹری ٹرانسپورٹ روزانہ مسخرہ قسم کی ٹرانسپورٹ دیکھ کر اپنے ٹھنڈے دفتر چلے جاتے ہیں۔ وہ نوجوان جو انٹر نیٹ پر بلٹ ٹرین دیکھتے ہیں وہ جب الوطنی کے سینے پر گولیاں مار کر دوسرے ملکوں کی راہ لیتے ہیں۔ آج کا نوجوان مجھ سے اور آپ سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ اگر حق تلفی ہو گی تو ردِ عمل آئے گا۔
پچھلی حکومت نے عوام کو عجیب و غریب تحفہ دینے کی کوشش کی۔ دنیا کی انتہائی مہنگی ٹرین لاہور کے مخصوص راستوں کے لیے منگوائی۔ اس وقت عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ملک کے ہر بڑے شہر کے آس پاس، کچھ میں بیچوں بیچ خانہ بدوش رہتے ہیں۔ کسی ماڈرن آنٹی نے ان کے حقوق کے بارے میں بھی بات کی؟ یہی غیر مساوی رویہ ہے جو بعد میں دہشت گرد اور عابد ریپسٹ پیدا کرتا ہے ایسے میں پناہ گاہیں بنائی گئیں تو کئی لوگوں کے منہ بن گئے۔ پہلے اپنے معاشرے کی اٹھان پر نظر ڈالیے بعد میں ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کریں۔ اگر معاشرے میںکمزور طبقے کو اوپر نہ اٹھایا گیا تو دنیا کے امیر ملکوں میں پڑھے لکھے پاکستانی خانہ بدوش مزور نظر آئیں گے۔