حیا

640

جب ہم تزکیے اور اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس کا پہلا اور سب سے بنیادی مطلب ہوتا ہے اخلاقی وجود کی اصلاح۔ رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ اور مزاج ِ بندگی سے مناسبت نہ ہو تو تزکیے کا سارا عمل اور اصلاح کے تمام تصورات بے نتیجہ رہ جاتے ہیں۔ صرف اخلاقی وجود ہی نہیں بلکہ اللہ سے تعلق کے تمام راستوں میں ایسی رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں جنہیں کسی اورذریعے سے پار نہیں کیا جاسکتا۔ مانے ہوئے عقائد ذہن میں مرجھا جاتے ہیں اور حکم اور ارادے کے تعلق میں ایک رسمیت ، تصنع، احساس ِ جبر اور میکانیکی پن کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ اس خلا میں اللہ سے اورا للہ کے رسول سے تعلق کا کوئی حق پورا نہیں ہوسکتاکیونکہ رسول اللہؐ کی اتباع کا ناگزیر اور مجموعی مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل کا عمل آپؐ کے اسوۂ حسنہ سے زندہ اور بامعنی مناسبت پیدا کر کے کریں۔ اس لیے تزکیے کی تمام تر حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ رسول اللہؐ کے مزاج ِ بندگی، ذوق ِ عبودیت اور مبارک طبیعت کی تاثیر کو نفس میں مسلسل رکھا جائے اور شخصیت کی تکمیل کے تمام عناصر کو وہیں سے متعلق رکھا جائے۔ تو بہرحال دین پر عمل کرنے کی تمام صورتوں اور دین کو ماننے کی ضروری حالتوں کا حصول اخلاقی وجود کی بیداری سے مشروط ہے۔تزکیۂ نفس کا مطلب ہے نفس میں اللہ کی محبت اور خشیت پیدا کرنا، اسے اللہ کی طرف رغبت اور اس کی اطاعت کا جذبہ فراہم کرنا۔ دوسرے لفظوں میں نفس کو آداب ِ بندگی سکھانا اور اس میں مزاج ِ عبودیت پیدا کرنا تاکہ اطاعت میں ناگواری نہ رہ جائے اور اس کے ساتھ ساتھ نفس میں کوئی عْجب اور خود پسندی بھی نہ پیدا ہو۔
اپنے تزکیے کے لیے مجاہدہ کرنے والے کو دو ذمے داریاں اٹھانی ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نفس کے مادۂ خیر کو کمزور نہ پڑنے دے اور دوسری یہ کہ داعیات ِ شرکو طاقت نہ پکڑنے دے۔ ان ذمے داریوں کو اخلاص اور سچائی کے ساتھ ادا کرتے رہنے سے جب اللہ کی توفیق سے کوئی فضیلت میسر آجائے تو اس خیر و فضیلت پر میرے اندر خود پسندی کا کوئی عنصر داخل نہ ہوسکے۔ کیونکہ اخلاقی فضائل اور کمالات ِ بندگی کا حصول اگر عاجزی اور انکسار کا سبب نہیں بنتا تو اس کا بندگی اور اخلاق ِ حسنہ سے تعلق نہیں ہے۔ نفس ِ امارہ کی سب سے گہری چال غالباً یہی ہوتی ہیکہ وہ خیر کی ایسی صورت بناتا ہے جس کا معنٰی شر ہوتا ہے۔ یعنی صورت ِ خیر اور معنی ِ شر کو اس طرح اکٹھا کر دیتا ہے کہ اچھے بھلے آدمی کو اس کاروائی کی خبر نہیں ہوپاتی۔ تو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جو نیکی اور جو فضیلت خود پسندی کا مْوجب بنے وہ عمومی گناہ اور نقص سے بدتر ہے۔ اللہ ہم کو تمام پوشیدہ اور علانیہ آفتوں سے محفوظ رکھے اور ہماری کمزوریوں کے باوجود ہماری نیت کو خالص رکھے اور ہمیں اتنے حسنات اور فضائل ضرور نصیب فرما دے جو آخرت میں سزا سے بچنے کا وسیلہ ثابت ہوں اور اس کی خوشنودی تک پہنچا دیں۔آمین۔
اگر پوچھا جائے کہ نفس کا تزکیہ کرتے ہوئے پہلے کس وصف کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ حیا!نفس میں حیا کا مادہ بیدار ہوجائے تو دیگر اخلاقی فضائل کا حاصل ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ حیا امّْ الاخلاق ہے، یہ اخلاقی وجود کی عمارت کا سنگ ِ بنیاد ہے۔ نفس میں اگر حیا کا مادہ مفقود یا کمزور ہو تو بندہ مجاہدے کر کے بھی اخلاق کی کچھ بے روح صورتیں ہی حاصل کر سکے گا۔ حیا تمام اخلاق کی روح ہے، اگر نفس میں یہ جوہر خوابیدہ حالت میں ہے تو سب سے پہلے اسے بیدار کیا جائیاللہ کی آواز سے، رسول اللہؐ کی ندا سے، پوری حاضردماغی کے ساتھ اور پوری آمادگی کے ساتھ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کا گزر ایک انصاری صحابی کے پاس سے ہوا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہے تھے (موقع یہ تھا کہ ان صاحب میں شرمیلاپن بہت تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی بات نہیں کرپاتے تھے، اپنا حق نہیں مانگ پاتے تھے، شرمیلا پن ان کے لیے رکاوٹ بن رہا تھا۔ اس پر یہ انصاری صحابی انہیں سمجھارہے تھے کہ اتنا شرمیلا پن بھی ٹھیک نہیں ہوتا)۔ آپؐ نے ان کی بات سن لی یا بات کا کوئی حصہ سنا تو فرمایا: ’’بس رہنے دو (یعنی بات کو اس رخ پر نہ لے جاؤ)! حیا وشرم تو ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘ (متفق علیہ)
غور کیجیے کہ آپ نے ایک نفسیاتی عارضے کے علاج کے طور پر بھی وہ گفتگو قبول نہیں فرمائی جو اس علاج میں معاون تو تھی لیکن یہ امکان بھی رکھتی تھی کہ اسے قبول کرنے کے نتیجے میں حیا کا مادہ کمزور پڑ سکتا تھا۔ رسول اللہؐ نے ایک صحیح مشورے کو بھی امکانی ضرر کی وجہ سے رد فرما دیا۔ یہ بات وہ بے چارے کیا سمجھیں گے جو اپنے ذرا ذرا سے مفادات کے لیے، چھوٹی چھوٹی سی ضرورتوں کے لیے رخصتیں ڈھونڈنے کے عادی ہیں اگر ہم صرف اس روایت پر سنجیدگی سے غور کر لیں تو ہم پر واضح ہو جائے گا کہ عارضی فائدے کے لیے دائمی نقصان کا خطرہ بھی مول نہیں لیا جاسکتا۔ ایک بات قانوناً صحیح ہو لیکن اخلاقاً مضر ہو تو قانونی جواز کو اخلاقی نقصان کے احتمال پر بھی ترجیح نہیں دی جائے گی۔ ہماری موجودہ مذہبی نفسیات کے اکثر مظاہر اسی غلطی کا نتیجہ ہیں کہ قانون کی مراد کو نفس پر حاکم بنائے بغیر اور قانون و اخلاق کی مجموعی وحدت کو اہمیت دیے بغیر ایسے اعمال اور رویے اختیار کر لیے گئے ہیں جو بظاہر ایک سطحی اور مشینی قسم کا قانونی جواز تو رکھتے ہیں مگر اخلاقی ہلاکت کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ شریعت پر عمل اگر مفید ِ تزکیہ نہیں ہے تو وہ در اصل شریعت ِ محمدی علیٰ صاحبھا الصلاۃ والتسلیم نہیں ہے۔ اب چاہے الفاظ وہی ہوں لیکن یہ الفاظ اپنے حقیقی اور لازمی معانی سے منقطع ہوکر کام میں لائے جا رہے ہیں۔
اسی حدیث کا ایک ٹکڑا صحیح مسلم میں زائد ہے۔ وہ ٹکڑا یہ ہے کہ
’’حیا ساری کی ساری خیر ہے‘‘۔ ساری کی ساری خیر ہونے کا مطلب یہ بھی ہیکہ کل اخلاق کی پیدائش حیا سے ہوتی ہے اور ہر اخلاقی وصف کو حیا کی تصدیق اور شہادت حاصل ہونی چاہیے۔ جس میں حیا نہیں ہے، اس کا کوئی اخلاقی وصف اور روحانی حال قابل ِ اعتبار نہیں ہے۔ حیا کے بغیر اخلاقی مستقبل سے مایوس ہوجانا چاہیے اور حیا کے ساتھ موجودہ اخلاقی پستی میں بھی پر امید رہنا چاہیے۔
(جاری ہے)
جناب ِ ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’ایمان کی کچھ اوپر ستر یا کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں (تعداد میں راوی کو شک ہے)۔ ان شاخوں میں بلند درجہ اور افضل شاخ لا الٰہ الا اللہ کی ہے۔ اور سب سے کم درجے کی بات، تکلیف دینے والی چیز راستے سے ہٹا دینا ہے۔ اور حیا ایمان کا شعبہ ہے‘‘۔
اس حدیث ِ مبارکہ میں آپؐ نے ایمان کی سب سے بلند شاخ بھی ارشاد فرما دی اور سب سے نچلا درجہ بھی بیان فرما دیا۔ اس کے بعد حیا کو الگ سے بتایا کہ یہ ایمان کا شعبہ ہے، حیا کو یہ امتیازی حیثیت دینے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپؐ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ حیا کا وصف پیدا ہوجائے تو تم ایمان کی سب سے اونچی شاخ پر بھی اللہ کی حمد کرنے والے پرندے کی طرح بیٹھ سکتے ہو اور سب سے نچلے عمل کو معمول بنالینے والے بھی بن سکتے ہو۔ یعنی حیا کی بدولت اللہ سے تعلق کے حقوق بھی اچھی طرح ادا ہوسکتے ہیں اور مخلوقات کے ساتھ تعلق کے نظام کی پاس داری بھی عمدہ طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اخلاق اسی کو تو کہتے ہیں کہ تعلق باللہ کے آداب بھی اچھی طرح ادا کیے جائیں اور مخلوق کے حقوق کو بھی عمدگی سے پورا کیا جائے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کی اساس توحید پر ہے اور مخلوق کے ساتھ تعلق کی بنیاد ان کی عملی خیر خواہی پر۔ ایمان ایک دائرہ ہے جس کی دو قوسیں ہیں : تعلق بالحق اور تعلق بالخلق۔ حیا سے ان دونوں میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر آج موقع نہ ملا تو ان شاء اللہ کسی اگلی نشست میں حیا کے موضوع پر اس پہلو سے کلام کریں گے کہ اپنی اخلاقی ساخت میں تعلق کا یہ دو طرفہ نظام جن بنیادوں پر چلتا ہے، حیا ان میں سے ایک لازمی بنیاد ہے۔
’’جناب ِ ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ کسی زاویہ نشیں پردہ دار دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ جب آپؐ کو کوئی بات ناپسند اور ناگوار ہوتی ہم اسے آپؐ کے چہرۂ اقدس کے تاثرات سے پہچان جاتے تھے‘‘۔ (متفق علیہ)
اس روایت کو ایک اور روایت سے ملا کر دیکھا جائے تو عظیم الشان اخلاقی حقائق اور معارف حاصل ہوسکتے ہیں۔
میں نے رسول اللہ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی ظلم کا بدلہ لیا ہو مگر یہ کہ اللہ کی کسی حرمت کو پامال کیا جائے۔ اور اگر اللہ کی کسی حرمت کو پامال کیا جاتا تھا تو آپؐ غصہ میں سب سے شدید ہوتے تھے۔
یعنی حیا صرف شرم کو نہیں کہتے، یہ غیرت بھی ہے، حمیت بھی ہے۔ اصل حیا، اللہ سے حیا ہے۔ ہمارے آپس کے تعلق میں حیاداری کے تمام مظاہر اسی حیا سے برآمد ہونے چاہییں جو ایک سچا بندہ اللہ کے ساتھ تعلق میں رکھتا ہے۔ حیا کا اصل مقصود ہے اللہ کے آگے شرمندگی سے بچنا ہے۔ یہ نہیں ہے تو پھر حیا بے اصل اور بے حقیقت ہے۔ان شاء اللہ اس گفتگو کے آخر میں حیا کے اہم نکات بیان کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ رسول اللہؐ کے اسوۂ حیا کے بنیادی معانی کیا ہیں۔
امام نَوَوِیؒ فرماتے ہیں کہ اہل ِ علم نے حیا کی حقیقت کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسی خصلت ہے جو ناگوار اور بری باتوں کو چھوڑنے پر ابھارتی ہے اور حق دار کا حق ادا کرنے میں کوتاہی سے روکتی ہے۔ سید الطائفہ جنید ِ بغددایؒ نے فرمایا ہے کہ حیا یہ ہے کہ آدمی اولاً اللہ تعالی کے انعامات، مہربانیوں اور نعمتوں پر غور کرے اور پھر اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا جائزہ لے۔ اس کے نتیجے میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اسی کا نام حیا ہے۔ حضرت ِ جنید صوفیوں کے امام ہیں۔ ان حضرات کے پیش ِ نظر یہ ہوا کرتا تھا کہ طبیعت میں خیر غالب آجائے کیونکہ نفس زیادہ تر طبیعت ہی ہے اور اخلاقی وجود کا تزکیہ طبیعت اور مزاج کے تزکیے کے بغیر مَحال ہے۔ اخلاقی وجود اگر ایک درخت کی طرح ہے تو یوں سمجھیں کہ اس کی جڑ حیا ہے۔ طبیعت میں حیا داری ہوتو اخلاق کی تمام شاخیں سرسبز وسیراب رہتی ہیں۔ حیا کے بغیر کچھ اخلاقی رویے اور اعمال اختیار تو کیے جاسکتے ہیں مگر وہ مصنوعی، بے روح اور محض دکھاوا ہوں گے۔ سیدنا جنید کی بات کو سمجھیں۔ وہ امامِ تزکیہ ہیں، ان کی اس حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی بات کو آمادگی کے ساتھ سنیں۔ یہ بہت قیمتی تدبیر ہے کہ ہم یہ غور کریں کہ اللہ کی ہم پر کیا کیا عنایتیں، نوازشیں، مہربانیاں اور رحمتیں ہیں۔ ہم ان غیر متناہی رحمتوں میں سے کسی ایک کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ اب یہ دیکھیں کہ رحمت ِ الہیہ کی اس فراوانی اور بے پایانی میں ہم اللہ کے حقوق پورے کرنے میں کتنی کوتاہی کر رہے ہیں۔ تو جو شخص بھی اللہ کی رحمت اور اپنی غفلت کو اکٹھا کر کے دیکھے گا وہ اپنے اندر پستی، نافرمانی، ناشکری اور غفلت کے سوا کچھ نہیں پائیگا۔ وہ دیکھ لے گا کہ نفس غفلت کی کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے اور غفلت کے زہریلے دھویں میں سانس لے رہا ہے۔ تو اس تضاد کے واضح ہوجانے پر کہ اللہ کیا کررہا ہے اور میں کیا کر رہا ہوں، نفس میں شرمندگی اور اپنی اصلاح کے عزم کی جو کیفیت پیدا ہوگی، وہی حیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ شرمندگی حیا کا حال ہے اور عزمِ اصلاح حیا کا تقاضا۔ ظاہر ہے شرمندگی اگر سچی ہوگی تو اس کے نتیجے میں کم از کم شرمندگی کے سبب کو دور کرنے کی قوت ضرور بیدار ہوگی۔
بڑے لوگوں کی بات بھی بہت جامع اور مکمل ہوتی ہے۔ ہمارے سلف چاہے کسی بھی ڈسپلن سے ہوں، کسی بھی روایت سے ہوں، چاہے محدث ہوں یا فقیہ ہوں یا صوفی ہوں، ان کا کلام جامعیت کے ساتھ ہوتا تھا۔ انہیں یہ وصف اپنے اخلاص کی وجہ سے حاصل تھا۔ اخلاص نہ ہو تو ایمانی شعور پیدا ہی نہیں ہوتا، جیسے حیا نہ ہو تو اخلاقی وجود کی نشو ونما نہیں ہوسکتی۔ تو خیر، یہ بات صرف سلف میں تھی کہ ان کے ایک فقرے میں دین کی بہت ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان ہوتا تھا۔ اللہ ہمیں اس روایت کے تسلسل کا ذریعہ بنائے۔
تو یہ بات واضح ہے نا کہ گناہ کو خلاف ِ غیرت سمجھنا، حیا کا ایک بڑا تقاضا ہے۔ غیرت ایک ایسا جذبہ ہے جو تمام احساسات میں سرایت کر جاتا ہے اور شخصیت کی تشکیل کے سارے عناصر کو خود سے متعلق رکھتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اللہ کو مانوں اور اس کی ناراضی سے نہ ڈروں اور اس کی خوشنودی کا طالب نہ رہوں۔ یہ ڈر اور یہ طلب، غیرت کا قِوام ہے۔ تعلق کی سچائی کو چیلنج پیش آجائے تو اس سچوئیشن میں نفس میں جوردّ ِ عمل پیدا ہوتا ہے، غیرت اسی کا نام ہے۔ ہمارے یہاں کچھ طبقوں میں، کچھ برادریوں میں ایک قبائلی غیرت تو پائی جاتی ہے جو انہیں جان دینے اور جان لینے پر آمادہ رکھتی ہے۔ ان لوگوں کو اپنی غیرت مندی پر فخر بھی بہت ہے لیکن ان کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ یہ غیرت ِ نفسانی ہے، غیرت ِ ایمانی نہیں، بلکہ یوں کہنے میں بھی حرج نہیں ہے کہ قبائلی غیرت کا اکثر حصہ حیوانی ہے، انسانی نہیں۔ ان غیرت داروں کی حمیت گناہ پر بیدار کیوں نہیں ہوتی۔ گناہ سے بڑھ کر خلاف ِ غیرت عمل اور کیا ہو سکتا ہے۔ حیا سے منقطع ہوکر کوئی غیرت نہیں، یا دوسرے لفظوں میں جو اللہ سے نہیں ڈرتا اس کی غیرت محض تکبر ہے، جو اللہ پر نہیں مرتا، اس کی غیرت فقط سنگ دلی ہے۔ حیا دار اور غیرت مند آدمی کی ایک پہچان تو یہ ہے کہ وہ نرم دل ہوتا ہیاور دوسری زیادہ بڑی پہچان یہ ہے کہ اس کے لیے یہ تصور ہی انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے کہ اللہ اس سے ناخوش ہے۔ یعنی اللہ کی ناخوشی کا تصور جہنم کی آگ کے تصور سے بھی زیادہ ہیبت ناک اور ہول ناک ہو جائے تو سمجھو کہ تم میں ایمانی حیا داخل ہوگئی ہے۔
جس کی تنہائی اچھی ہے وہ حیادار ہے اور جس کی تنہائی اچھی نہیں ہے اس کی حیاداری محض اداکاری ہے۔ حیا کی کسوٹی تنہائی میں گڑی ہوئی ہے اور ہر آدمی خود کو اس کسوٹی پر پرکھ سکتا ہے۔ حیا کے پودے کو اللہ نے دل اور فطرت کی زمین پر اگا رکھا ہے۔ یہ مسلّمات ِ فطرت میں سے ہے، کوئی آدمی فطری مسلّمات میں خود کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ ہر شخص کو یہ بات یقین سے معلوم ہے کہ اس میں حیا کس درجے کی ہے، اور ہے بھی یا نہیں؟ تو ہم اس بات کے پابند ہیں کہ قلب اور فطرت کی زمین پرلگے ہوئے اس پودے کی حفاظت کریں اور اسے مسلسل سیراب کرتے رہیں اللہ کی محبت کے چشمے سے، خشیت کے پانی سے اورمعرفت کی روشنی سے۔ اس کی حفاظت جلوت میں ہوتی ہے اور سیرابی خلوت میں۔ تو حیا اسی وقت حقیقی ہوگی جب گناہ کا خیال بھی ہمارے لیے ڈراؤنا اور مکروہ بن جائے گا اور نیکی کا تصور بھی ہمارے اندر ایک موجب ِ عمل رغبت پیدا کرے گا۔
استغفار سے بھی حیا کا مادہ بڑھتا ہے بلکہ طبیعت میں حیا نہ ہو تو استغفار اچھی طرح ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ تدبیریں ہیں: مثلا نظر کی حفاظت۔ آنکھ اور حیا کا غالباً سب سے زیادہ ڈائریکٹ تعلق ہے۔ اس لیے نگاہ کی حفاظت حیا کی پیدائش اور پرورش کے لیے ایک لازمی عمل اور رویہ ہے۔ آنکھیں حیا کا بندھن توڑ دیں اور ماحول بھی ایسا ہوجائے جس میں آنکھوں کی تربیت اور حفاظت کا کوئی سامان نہ ہوتو پھر دینی اور اخلاقی زندگی اپنے ہر پہلو سے محال ہوجاتی ہے۔ بے حیائی جرثومہ مرگ ہے۔ دینی تہذیب، اخلاقی معاشرت اور ایمانی نفسیات کو درپیش سب سے بڑا خطرہ مسلم معاشروں میں پھیلتی ہوئی بے حیائی ہے۔ اور اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ بے حیائی اور اس کے مظاہر مذہبی لوگوں کو بھی فکر مند نہیں کرتے۔ اب یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا کہ تم عورت سیہاتھ کیوں ملا رہے ہو اور ٹی وی کی اناؤنسر بے پردہ کیوں ہے۔ باطن کی صفائی اور معاشرے کی اخلاقی روح کا تحفظ کرنے والے مسائل یوں لگتا ہے کہ اب مذہبی مکالمے ہی سے نکل گئے ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حب ِ دنیا، حیا اور جہاد پر گفتگو کتنی کم ہوگئی ہے جیسے یہ دینی مسائل ہی نہیں رہے۔ جس رفتار سے بے حیائی اور گھٹیا پن پھیل رہا ہے، اسے روکنے کی مؤثر اور مربوط کوشش نہ کی گئی تو دینی معاشرت اور ایمانی نفسیات کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ بے حیائی ذہن کوبھی چھوٹا کر دیتی ہے، خصوصاً اس ذہن کو جو حیا کا تصور تو رکھتا ہیمگر اسے قابل ِ عمل نہیں بننے دیتا۔ اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ کم از کم مسلم ذہن بے حیائی کی اس فضا میں اگر حالت ِ تصادم میں نہیں رہتا تو پھر اسے سکڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آنکھوں سے ذہن اور دل کا نظام چلتا ہے۔ ان کا ذوق ِ دید دل کے احوال پر بھی اثرانداز ہوتا ہے اور ذہن کے مزاج کو بھی بدل دیتا ہے۔ہم میں سے ہر ایک دیکھ رہا ہیکہ بڑا حال اور بڑا خیال ہمارے دل اور ذہن سے کوچ کر چکا ہے۔ ہمارے محبوب بھی معمولی سے ہیں اور ذہن کو کشش کرنے والے مقاصد بھی بالکل گھٹیا ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس dehumanizationمیں بے حیائی کا بھی بڑا کردار ہے، اس بے حیائی کا جو آنکھوں کے راستے دل ودماغ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ جو ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں کہ کلاس روم میں ، مجلس میں، مجمع میں حتی کہ مسجد میں بھی اگر کوئی سنجیدہ اور گہری بات چھیڑ دی جائے تو آدھے لوگ تو سونے لگتے ہیں اور آدھے یہ شکایت کرتے ہیں کہ بڑی مشکل باتیں تھیں، سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ ظاہر ہے جو دل ایک بے پردہ چہرے کو دیکھ کر سرشار ہوجاتا ہے وہ بھلا حقائق و معانی سے حاصل ہوسکنے والی سرمستی کو کیسے جذب کر سکتا ہے!بہت سے لوگ ہیں جو مجھ سے وقتا فوقتا گلہ کرتے ہیں کہ تمہاری باتیں مشکل ہوتی ہیں۔ انہیں تو میں کوئی جواب نہیں دیتا، زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ دیتا ہوں کہ بہتر ہے، انہیں آسان بنانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن آج مجبورا کہہ رہا ہوں کہ ان شکایت کرنے والوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ جو بات تمہیں مشکل لگتی ہے، اسے سمجھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ مشکل کو حل کرنے کے کچھ معروف ذرائع ہیں جو سب کی دسترس میں ہیں، وہ تم نے کبھی استعمال کیے؟ یعنی کوئی لغت دیکھی ہو، کسی سے پوچھ لیا ہویا تھوڑی دیر خود ہی غور کر لیا ہو۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا تو تمہیں کسی بات کو مشکل کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
میرے خیال میں تو یہ سب ذہنی پستی اور غیر سنجیدگی بے حیائی کے ماحول میں کسی مزاحمت کے بغیر رہنے کی نحوست ہے۔ حیا غیاب کو شہود پر غالب رکھتی ہے، اس لیے حیادار آدمی کے ذہن میں اور دل میں تہہ داری ہوتی ہے۔ اس کے احساسات اور تخیلات میں ایک غیر متناہی تنوع اور گہرائی ہوتی ہے۔ بے حیا آدمی کے پلّے میں کیا ہے۔ بس ایک چیز کو دیکھ لیا اور تسکین کے بھی سارے مطالبے پورے کر لیے اور شوق کے تمام تقاضے بھی تمام کر دیے۔ یہ بے چارہ تو حسن اور خیر اور حق سے کٹی ہوئی صورتوں ہی سے بھر ا ہوا ہے اور ان ہی سے خالی ہے۔ اس کی سیرابی بھی بے نسب صورتوں پر موقوف ہے اور پیاس بھی ان ہی تک محدود ہے۔
ع صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
حیا کے اہم نکات
اب مناسب ہوگا کہ ہم حیا کے کچھ اہم نکات بیان کر دیں جن کا ذکر گفتگو کے آغاز میں آیا تھا:
۱۔ نگاہ کی حفاظت۔ نگاہ صرف آنکھ کی نہیں ہوتی، ذہن کی بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں کی حفاظت کرنی ہے۔ بیپردہ عورت کو اوربے شرمی کے مناظر کو نہ آنکھ سے دیکھنا ہے نہ ذہن کی نگاہ سے۔ یعنی بے حیائی کے مشاہدے سے بھی بچنا ہے اور تصور سے بھی۔
۲۔ فحش گفتگو کرنے اور سننے سے مکمل پرہیز۔ زبان بھی صرف منہ میں نہیں ہے، دل اور دماغ بھی بے زبان نہیں ہیں۔ ان تینوں زبانوں کو فحش گوئی سے بچانا ہے۔
۳۔ اپنی ذاتی تکلیف اور نقصان پر دوسروں کو فورا ًمعاف کردینا۔ یہ تین چیزیں اگر معمول بن جائیں تو اللہ کے فضل سے قوی امید ہیکہ طبیعت حیا دار ہوجائے گی۔ یہاں ہم حیا اس کے معروف معنی میں کہہ رہے ہیں، یعنی شرم۔ اس میں غیرت وحمیت کے جو عناصر پائے جاتے ہیں، ان کی تفصیل ہوچکی ہے۔ اب یہاں ایک ایسی تدبیر عرض کرتا ہوں جو حیا بمعنی شرم اور حیا بمعنی حمیت دونوں کو دل میں پیدا کر دیگی۔ ان شاء اللہ۔ اور وہ تدبیر یہ ہے کہ قرآن شریف کو محبت سے دیکھا کرو، اسے سینے سے لگایا کرو، اسے آنکھوں سے چوما کرو۔ ان شاء￿ اللہ کچھ دنوں ہی میں دیکھ لو گے کہ نفس میں پاکیزگی کی ایک رَو دوڑ رہی ہے جس سے دل آنکھ اور ذہن سب دھلتے جار ہے ہیں۔ اس تدبیر کو اپنا معمول ضرور بنانا، مرتے دم تک کا معمول!