عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت نہیں بنتی ، اسلام آباد ہائیکورٹ

407

 

اسلام آباد(آن لائن)عدالتی فیصلے پبلک ہوجائیں تو تنقید پر توہین عدالت نہیں بنتی۔اسلام آباد ہائیکورٹ۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے حکومتی رْولز سے متعلق درخواست پر پی ٹی اے کو سوشل میڈیارْولز پر پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کردی۔گذشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی اے وکیل کو آزادی اظہار دبانے والے بھارت کی مثال دینے سے روک دیااور کہاکہ یہاں انڈیا کا ذکر نہ کریں ہم بڑے کلئیر ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو،اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کردیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ایسے رْولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا، اگر سوشل میڈیا رْولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی،تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی، کوئی بھی قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں،پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جز ہے ،کیوں کوئی تنقید سے خوفزدہ ہو ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے،یہاں تک عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف فئیر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے،پاکستان بارکونسل کے وکیل نے کہاکہ رولز کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں، جس پر عدالت نے کہاکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بارکونسل کا کام ہے وہ وکلا کی نمائندہ باڈی ہے، پی ٹی اے حکام نے کہاکہ پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل سب کو تجاویز کے لیے لیٹر لکھے گئے تھے ،عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مطمئن کریں کہ رولز آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عدالت کیوں احتساب سے ڈرے،نہ کوئی قانون سے بالاتر نہ تنقید سے بالاتر ہے،جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں،یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں،جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی، عدالت نے پی ٹی اے وکیل کو ہدایت کی کہ ایک چیز یاد رکھیں یہاں ایک آئین ہے، جمہوریت ہے،جمہوریت کے لیے تنقید بڑی ضروری ہے اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا، عدالت نے پی ٹی اے سے دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کردی۔